37-محمد بن حنفیہ بیان کرتے ہیں: سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غزوۂ)خیبر کے زمانے میں نکاح متعہ اور پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کردیا تھا۔ سفیان کہتے ہیں اس روایت سے مراد یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی مراد یہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر نکاح متعہ سے بھی منع کیا تھا۔ (بلکہ نکاح متعہ کی حرمت کا حکم بعد میں دیا تھا)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 37]
تخریج الحدیث: «إسناد صحيح، أخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 576، وفي صحيح ابن حبان: 4140، 4143، 4145»
38- عبداللہ بن ابویجیح اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: مجے ان صاحب نے بتایا جنہوں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے یہ سنا، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے یہ ارادہ کیا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کے لئے نکاح کا پیغام بھجواؤں پھر مجھے یاد آیا، میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں۔ پھر مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور فضیلت کا خیال آیا، تو میں نے (سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے) نکاح کا پیغام دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے، جسے تم (مہر کے طور پر) اسے دو؟ میں نے عرض کی: جی نہیں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری حطمیہ زرہ کہاں ہے؟ جو میں نے فلاں موقع پر تمہیں دی تھی؟ میں نے عرض کیا: وہ مرے پاس ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے ہی لے آؤ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں وہ لے کر آیا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ زرہ دی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری شادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ کردی۔ جب ان کی رخصتی ہوئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تک میں تم دونوں کے پاس نہیں آتا اس وقت تک تم دونوں کوئی بات چیت نہ کرنا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے ایک چادر (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک کمبل اوڑھا ہوا تھا۔ جب ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو ہم اس میں داخل ہونے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دونوں اپنی جگہ پر رہو! پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی موجود تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں دعا مانگی (یعنی اس پر کچھ پڑھ کر دم کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہم پر چھڑک دیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ (یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں، یا میں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے نزدیک تم سے زیادہ محبوب ہے اور تم میرے نزدیک اس سے زیادہ معزز ہو۔ یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں راوی نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پر یہ بات بیان کرتے ہوئے سنا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 38]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أحمد 80/1، والبيهقي فى الصداق 234/7 وابوداود:2126»
39- عائش بن انس بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے منبر پپر یہ بات کرتے ہوئے سنا۔ میری مذی مکثرت خارج ہوا کرتی تھی میں اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا چاہتا تھا، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری اہلیہ تھیں اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کرتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہوتی تھی، تو میں نے عماررضی اللہ عنہ(بن یاسر) کو یہ ہدایت کی انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس (مذی کے خروج پر) صرف وضو کرلینا کافی ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 39]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 354/1 برقم 456»
40- ابوحجیفہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: آپ کے پاس قرآن کے علاوہ کوئی اور ایس چیز ہے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہو، تو انہوں نے جواب دیا: جی نہیں۔ اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو چیرا ہے اور جان کو پیدا کیا ہے (ہمارے پاس ایسا کچھ نہیں ہے) صرف وہ چیز ہے، جو اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی کتاب کے بارے میں فہم عطا کردیتا ہے یا وہ کچھ ہے، جو اس صحیفے میں موجود ہے۔ میں نے دریافت کیا: اس صحیفے میں کیا ہے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: دیت کے بارے میں، قیدی کو رہائی دلانے کے بارے میں (احکام ہیں اور یہ حکم ہے کہ) کوئی مسلمان کسی کافر کے بدلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 40]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبخاري فى العلم: 111، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 382/1 برقم 338»
41- عبدالرحمٰن بی ابولیلیٰ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ ہدایت کی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں (یعنی انہیں ذبح کرواؤں) اور پر ڈالے جانے والے کپڑے اور ان کی کھالوں کی تقسیم کردوں اور ان میں کوئی بھی چیز قصائی کو نہ دوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اسے اپنے پاس ے (معاوضے کی) ادائیگی کریں گے۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 41]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبخاري فى الحج: 1716، ومسلم: 1317، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 256/1 برقم 298»
42- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم دیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے جانوروں کی نگرانی کروں اور پر ڈالے جانے والے کپڑے اور ان کی کھالوں کو تقسیم کردوں۔ ● حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن ابویجیح نے میرے سامنے صرف یہی الفاظ بیان کیے تھے جہاں تک عبدالکریم نامی راوی کا تعلق ہے، تو انہوں نے اس کے مقابلے میں زیادہ مکمل روایت بیان کی۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 42]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 143/1، والبخاري فى الحج: 1716، ومسلم: 1317، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 233/1 برقم 269»
43- عبد الرحمٰن بن ابولیلیٰ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی خادم مانگ لیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لئے اس سے زیادہ بہتر ہو؟ تم سوتے وقت 33 مرتبہ سبحان اللہ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔ (یہ روایت بیان کرنے کے بعد) سفیان نے کہا: ان میں سے کوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ بات سنی ہے میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ لوگوں نے ان سے دریافت کیا۔ جنگ صفین کی رات بھی نہیں؟ انہوں نے فرمایا" جنگ صفین کی رات بھی (میں نے اس پڑھنا ترک نہیں کیا)۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 43]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 80/1، والبخاري: 5362، ومسلم:2727، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 236/1-237 برقم 374 و مصنف ابن ابي شيبه: 262/1 برقم: 9392»
44- سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: (سیدہ)فاطمہ (رضی اللہ عنہا)، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں خادم مانگنے کے لئے حاضر ہوئیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہیں خادم نہیں دوں گا۔ کیا میں اہل صفہ کو بھوکا پیٹ چھوڑ دوں؟ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جو تمہارے لیے اس سے زیادہ بہتر ہے؟ اس کے بعد راوی نے عبید اللہ کے حوالے سے منقول سابقہ روایت آخر تک نقل کی ہے۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 44]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 79/1، والبیھقی فی شعب الایمان: 259/3 برقم: 3480، وأخرجه أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 236/1-237 برقم 374 و مصنف ابن ابي شيبه: 263/10 برقم: 93932»
45- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں: عبداللہ بن عتبہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے گزارش کی: جنگ صفین کی رات بھی نہیں؟ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں رات کے آخری حصے میں انہیں پڑھا تھا۔ [مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 45]
46- شریح بن ہانی بیان کرتے ہیں: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موزوں پر مسح کرنے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا: تم سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر ان سے یہ سوال کرو، کیونکہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگوں میں شریک ہوتے رہے۔ راوی کہتے ہیں: میں نھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا، تو انہوں نے ارشاد فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرماتے تھے۔ ”مقیم کے لئے اس کی مدت ایک دن اور ایک رات، جبکہ مسافر کے لئے تین دن اور تین راتیں ہیں۔“[مسند الحميدي/أَحَادِيثُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ/حدیث: 46]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، فقد اخرجه عبدالرزاق: 788، أبو يعلى الموصلي فى ”مسنده“: 423/1 برقم 560 غيران الحديث صحيح، أخرجه مسلم 276، وابويعلي فى المسنده: 229/1 برقم: 264، وعبدالرزاق: 789، وابن خزيمة: 194، وابن حبان: 13»