الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
مسند النساء
حدیث نمبر: 25951
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ , عَنْ مُعَاذَةَ , قَالَتْ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ , فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْحَائِضِ تَقْضِي الصَّوْمَ وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ , فَقَالَتْ:" أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟" قَالَتْ: قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ , وَلَكِنِّي أَسْأَلُ , قَالَتْ:" قَدْ كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيأمرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ وَلَا يَأْمُرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ" , قَالَ مَعْمَرٌ : وَأَخْبَرَنِي أَيُّوبُ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ , عَنْ مُعَاذَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , مِثْلَهُ.
معاذہ رحمہ اللہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا حائضہ عورت نمازوں کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے فرمایا کیا تو خارجی ہوگئی ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب ہمارے " ایام " آتے تھے تو ہم قضاء کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25951]
حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، خ: 321، م: 335
حدیث نمبر: 25952
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى قَبَضَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ماہ رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے حتیٰ کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25952]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2026، م: 1172
حدیث نمبر: 25953
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ بَعْضَ نِسَائِهِ وَهُوَ صَائِمٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی ازواج کو بوسہ دے دیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25953]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد اختلف فيه على الزهري
حدیث نمبر: 25954
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ وَمَعَهُ نَاسٌ , ثُمَّ صَلَّى الثَّانِيَةَ , فَاجْتَمَعَ تِلْكَ اللَّيْلَةَ أَكْثَرُ مِنَ الْأُولَى , فَلَمَّا كَانَتْ الثَّالِثَةُ أَوْ الرَّابِعَةُ امْتَلَأَ الْمَسْجِدُ حَتَّى اغْتَصَّ بِأَهْلِهِ , فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ النَّاسُ يُنَادُونَهُ الصَّلَاةَ , فَلَمْ يَخْرُجْ , فَلَمَّا أَصْبَحَ , قَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَا زَالَ النَّاسُ يَنْتَظِرُونَكَ الْبَارِحَةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ أَمْرُهُمْ , وَلَكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْهِمْ" ..
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم درمیان رات میں گھر سے نکلے اور مسجد میں جا کر نماز پڑھنے لگے، لوگ جمع ہوئے اور وہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں شریک ہوگئے، اگلی رات کو پہلے سے زیادہ تعداد میں لوگ جمع ہوگئے، تیسرے دن بھی یہی ہوا، چوتھے دن بھی لوگ اتنے جمع ہوگئے کہ مسجد میں کسی آدمی کے آنے کی گنجائش نہ رہی لیکن اس دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں بیٹھے رہے اور باہر نہیں نکلے حتیٰ کہ میں بعض لوگوں کو " نماز ' نماز " کہتے ہوئے سنا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نہیں نکلے، پھر جب فجر کی نماز پڑھائی تو سلام پھیر کر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے، توحید و رسالت کو گواہی دی اور اما بعد کہہ کر فرمایا تمہاری آج رات کی حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں ہے، لیکن مجھے اس بات کا اندیشہ ہو چلا تھا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے اور پھر تم اس سے عاجز آجاؤ۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25954]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 924، م: 761
حدیث نمبر: 25955
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , فَذَكَرَ مَعْنَاهُ يَعْنِي , صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ.
[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25955]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 761
حدیث نمبر: 25956
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: " مَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ خَادِمًا لَهُ قَطُّ , وَلَا امْرَأَةً , وَلَا ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ شَيْئًا قَطُّ , إِلَّا أَنْ يُجَاهِدَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَلَا خُيِّرَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ قَطُّ إِلَّا كَانَ أَحَبَّهُمَا إِلَيْهِ أَيْسَرُهُمَا حَتَّى يَكُونَ إِثْمًا , فَإِذَا كَانَ إِثْمًا كَانَ أَبْعَدَ النَّاسِ مِنَ الْإِثْمِ , وَلَا انْتَقَمَ لِنَفْسِهِ مِنْ شَيْءٍ يُؤْتَى إِلَيْهِ حَتَّى تُنْتَهَكَ حُرُمَاتُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , فَيَكُونَ هُوَ يَنْتَقِمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الاّ یہ کہ اللہ کے راستہ میں جہاد کر رہے ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی سے کبھی انتقام نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم خداوندی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لئے انتقام لیا کرتے تھے۔ اور جب بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو چیزیں پیش کی جاتیں اور ان میں سے ایک چیز زیادہ آسان ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم آسان چیز کو اختیار فرماتے تھے، الاّ یہ کہ وہ گناہ ہو، کیونکہ وہ گناہ ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے لوگوں کی نسبت اس سے زیادہ سے زیادہ دور ہوتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25956]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2328
حدیث نمبر: 25957
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ , عَنْ عَمْرَةَ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى النِّسَاءَ الْيَوْمَ نَهَاهُنَّ عَنِ الْخُرُوجِ , أَوْ حَرَّمَ عَلَيْهِنَّ الْخُرُوجَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر آج کی عورتوں کے حالات دیکھ لیتے تو انہیں ضرور مسجدوں میں آنے سے منع فرما دیتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25957]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 25958
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ , عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنِ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا فَلَاجَهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ , فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ , فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَلَمْ يَرْضَوْا , قَالَ:" فَلَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَلَمْ يَرْضَوْا , قَالَ:" فَلَكُمْ كَذَا وَكَذَا" , فَرَضُوا , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ" , قَالُوا: نَعَمْ , فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ , فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا , أرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: لَا , فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ , فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا , فَكَفُّوا , ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ , وَقَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" فَإِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ" , قَالُوا: نَعَمْ , فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ:" أَرَضِيتُمْ؟" , قَالُوا: نَعَمْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے ایک علاقے میں بھیجا، وہاں ایک آدمی نے زکوٰۃ کی ادائیگی میں ابوجہم سے جھگڑا کیا، ابوجہم نے اسے مارا اور زخمی ہوگیا، اس قبیلے کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ہمیں قصاص دلوائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم قصاص کا مطالبہ چھوڑ دو، میں تمہیں اتنا مال دوں گا، لیکن وہ لوگ راضی نہ ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مقدار میں مزید اضافہ کیا، لیکن وہ پھر بھی راضی نہ ہوئے، البتہ تیسری مرتبہ اضافہ کرنے پر وہ لوگ راضی ہوگئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لوگوں سے مخاطب ہو کر انہیں تمہاری رضا مندی کے متعلق بتادوں؟ انہوں نے کہا جی ضرور۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ قبیلہ کے یہ لوگ میرے پاس قصاص کی درخواست لے کر آئے تھے، میں نے انہیں اتنے مال کی پیشکش کی ہے اور یہ راضی ہوگئے ہیں، پھر ان سے فرمایا کیا تم راضی ہوگئے؟ انہوں نے انکار کردیا، اس پر مہاجرین کو بہت غصہ آیا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے کا حکم دے دیا، وہ رک گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا کر مقررہ مقدار میں مزید اضافہ کردیا اور فرمایا اب تو راضی ہو؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں لوگوں سے مخاطب ہو کر انہیں تمہاری رضامندی کے متعلق بتادوں؟ انہوں نے کہا جی ضرور، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ان سے پوچھا کیا تم راضی ہوگئے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25958]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 25959
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ , عَنِ الزُّهْرِيِّ , فَذَكَرَ حَدِيثًا ثُمَّ، قَالَ , قَالَ: الزُّهْرِيُّ ، فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ , عَنْ عَائِشَةَ , أَنَّهَا قَالَتْ: أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّادِقَةُ فِي النَّوْمِ , وَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ , ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ , فَكَانَ يَأْتِي حِرَاءَ , فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ , وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ , وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ , ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَتُزَوِّدُهُ لِمِثْلِهَا , حَتَّى فَجِئَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءَ , فَجَاءَهُ الْمَلَكُ فِيهِ , فَقَالَ: " اقْرَأْ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقلت:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" قَالَ:" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئ" فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ , حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ , فَقُلْتُ:" مَا أَنَا بِقَارِئٍ" , فَأَخَذَنِي , فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدُ , ثُمَّ أَرْسَلَنِي , فَقَالَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ سورة العلق آية 1 , حَتَّى بَلَغَ مَا لَمْ يَعْلَمْ سورة العلق آية 5 , قَالَ: فَرَجَعَ بِهَا تَرْجُفُ بَوَادِرُهُ , حَتَّى دَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ , فَقَالَ:" زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي" , فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ , فَقَالَ:" يَا خَدِيجَةُ مَالِي؟" فَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ , قَالَ:" وَقَدْ خَشِيتُ عَلَيَّ" , فَقَالَتْ: لَهُ كَلَّا أَبْشِرْ , فَوَاللَّهِ لَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا , إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ , وَتَصْدُقُ الْحَدِيثَ , وَتَحْمِلُ الْكَلَّ , وَتَقْرِي الضَّيْفَ , وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ , ثُمَّ انْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ , وَهُوَ ابْنُ عَمِّ خَدِيجَةَ أَخِي أَبِيهَا , وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعَرَبِيَّ , فَكَتَبَ بِالْعَرَبِيَّةِ مِنَ الْإِنْجِيلِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ , وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ , فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: أَيْ ابْنَ عَمِّ , اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ , فَقَالَ وَرَقَةُ ابْنَ أَخِي , مَا تَرَى؟ فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا رَأَى , فَقَالَ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام , يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا , أَكُونَ حَيًّا حِينَ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَ مُخْرِجِيَّ هُمْ" , فَقَالَ وَرَقَةُ: نَعَمْ , لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ , وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ , أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا , ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ فَتْرَةً حَتَّى حَزِنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فِيمَا بَلَغَنَا حُزْنًا غَدَا مِنْهُ مِرَارًا كَيْ يَتَرَدَّى مِنْ رُءُوسِ شَوَاهِقِ الْجِبَالِ , فَكُلَّمَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ لِكَيْ يُلْقِيَ نَفْسَهُ مِنْهُ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ حَقًّا , فَيُسْكِنُ ذَلِكَ جَأْشَهُ , وَتَقَرُّ نَفْسُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ , فَيَرْجِعُ , فَإِذَا طَالَتْ عَلَيْهِ , وَفَتَرَ الْوَحْيُ , غَدَا لِمِثْلِ ذَلِكَ , فَإِذَا أَوْفَى بِذِرْوَةِ جَبَلٍ , تَبَدَّى لَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ لَهُ: مِثْلَ ذَلِكَ .
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اول سچی خوابوں سے وحی کا نزول شروع ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو خواب دیکھتے وہ بالکل صبح روشن کی طرح ٹھیک پڑتا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلوت پسند ہوگئے تھے اور غار حرا میں جا کر گوشہ گیری اختیار کرلی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی روز تک وہیں پر عبادت میں مشغول رہتے تھے، اسی اثناء میں گھر پر بالکل نہ آتے تھے لیکن جس وقت کھانے پینے کا سامان ختم ہوجاتا تھا تو پھر اتنے ہی دنوں کا کھانا لے کر چلتے تھے، آخر کار اسی غار حرا میں نزول وحی ہوا۔ ایک فرشتہ نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا پڑھئے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں) یہ سن کر اس فرشتہ نے مجھ کو پکڑ کر اتنا دبایا کہ میں بےطاقت ہوگیا، پھر اس فرشتہ نے مجھ کو چھوڑ کر کہا پڑھئے! میں نے کہا میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں، اس نے دوبارہ مجھ کو پکڑ کر اس قدر دبوچا کہ مجھ میں طاقت نہیں رہی اور پھر چھوڑ کر مجھ سے کہا پڑھئے میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ تیسری بار اس نے مجھ کو اس قدر زور سے دبایا کہ میں بےبس ہوگیا اور آخر کار مجھ کو چھوڑ کر کہا! کہ " پڑھ " اپنے رب کے نام کی برکت سے جس نے (ہر شئ کو) پیدا کیا (اور) انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا پڑھ اور تیرا رب بڑے کرم والا ہے "۔ (ام المومنین فرماتی ہیں) آپ یہ بات پڑھتے ہوئے گھر تشریف لائے تو اس وقت آپ کا دل دھڑک رہا تھا، چنانچہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ کر آپ نے فرمایا مجھے کمبل اڑھاؤ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو کپڑا اوڑھایا، جب آپ کی بےقراری دور ہوئی اور دل ٹھکانے ہوا تو ساری کیفیت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے بیان فرمائی اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ کی قسم! یہ ہرگز نہیں ہوسکتا، آپ کو بالکل فکر نہ کرنی چاہیے، خدائے تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپ تو برادر پرور ہیں محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، کمزوروں کا کام کرتے ہیں، مہمان نوازی فرماتے ہیں اور جائز ضرورتوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ ورقہ نے دور جاہلیت میں عیسائی مذہب اختیار کرلیا تھا اور انجیل کا (سریانی زبان سے) عبرانی میں ترجمہ کر کے لکھا کرتے تھے، بہت ضعیف العمر اور نابینا بھی تھے، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس پہنچ کر کہا ابن عم ذرا اپنے بھتیجے کی حالت تو سنئے! ورقہ بولا کیوں بھتیجے کیا کیفیت ہے؟ آپ نے جو کچھ دیکھا تھا ورقہ سے بیان کردیا جب ورقہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سب حال سن چکے تو بولے یہ فرشتہ وہی ناموس ہے، جس کو خدائے تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا کاش! میں عہد نبوت میں جوان ہوتا کاش! میں اس زمانہ میں زندہ ہوتا جب کہ آپ کو قوم والے (وطن سے) نکالیں گے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ بولے جی ہاں! جو شخص بھی آپ کی طرح دین الٰہی لایا ہے اس سے عداوت کی گئی ہے، اگر میں آپ کے عہد نبوت میں موجود ہوا تو کافی امداد کروں گا، لیکن اس کے کچھ ہی دنوں بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور سلسلہ وحی بند گیا، فترتِ وحی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے دل گرفتہ ہوئے کہ کئی مرتبہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانے کا ارادہ کیا، لیکن جب بھی وہ اس ارادے سے کسی پہاڑی کی چوٹی پر پہنچتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آجاتے اور عرض کرتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اللہ کے برحق رسول ہیں، اسے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جوش ٹھنڈا اور دل پر سکون ہوجاتا تھا اور وہ واپس آجاتے، پھر جب زیادہ عرصہ گذر جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی طرح کرتے اور حضرت جبرائیل علیہ السلام انہیں تسلی دیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25959]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4956، م: 160
حدیث نمبر: 25960
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ الْحَبَشَةَ لَعِبُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَانِي , فَنَظَرْتُ مِنْ فَوْقِ مَنْكِبِهِ حَتَّى شَبِعْتُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ عید کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ حبشی کرتب دکھا رہے تھے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر سر رکھ کر انہیں جھانک کر دیکھنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کندھے میرے لئے جھکا دیئے، میں انہیں دیکھتی رہی اور جب دل بھر گیا تو واپس آگئی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25960]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 892

Previous    191    192    193    194    195    196    197    198    199    Next