حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک بغلی بنائی گئی تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25041]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ناگہانی موت کے متعلق پوچھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کے لئے تو یہ راحت ہے اور گنہگار کے لئے افسوس کی پکڑ ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25042]
حكم دارالسلام: إسناده واه، عبيدالله بن الوليد متروك، وعبدالله بن عبيد بن عمير لم يسمع من عائشة
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالَتْ: جَاءَتْ فَتَاةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي زَوَّجَنِي ابْنَ أَخِيهِ يَرْفَعُ بِي خَسِيسَتَهُ. " فَجَعَلَ الْأَمْرَ إِلَيْهَا". قَالَتْ: فَإِنِّي قَدْ أَجَزْتُ مَا صَنَعَ أَبِي، وَلَكِنْ أَرَدْتُ أَنْ تَعْلَمَ النِّسَاءُ أَنْ لَيْسَ لِلْآبَاءِ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سے مروی ہے کہ ایک نوجوان عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میرے باپ نے میرا نکاح اپنے بھتیجے کے ساتھ کردیا ہے، وہ میرے ساتھ گھٹیا باتیں کرتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے معاملے کا اختیار دے دیا، سو کہنے لگی کہ میرے باپ نے جو نکاح کردیا ہے، میں اسی کو برقرار رکھتی ہوں لیکن میں چاہتی ہوں کہ آپ عورتوں کو بتادیں کہ باپ کو اس معاملے میں جبر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25043]
حكم دارالسلام: حديث صحيح
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا نَزَلَتْ: وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ سورة الشعراء آية 214 قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ، يَا صَفِيَّةُ بِنْتَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتُمْ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اے صفیہ بنت عبدالمطلب! اور اے بنو عبدالمطلب، میں اللہ کے یہاں تمہارے لئے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا البتہ مجھ سے جتنا چاہو مال لے لو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25044]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 255
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْمِقْدَامِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: مَنْ حَدَّثَكَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَالَ قَائِمًا فَلَا تُصَدِّقْهُ، " مَا بَالَ رَسُولُ اللَّهِ قَائِمًا مُنْذُ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جو شخص تم سے یہ بات بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ہے، تو تم اسے سچا نہ سمجھنا کیونکہ جب سے ان پر قرآن نازل ہوا، انہوں نے بلاعذر کبھی کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25045]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو صحت مند اور بڑے مینڈھوں کی قبربانی فرمائی جو خوبصورت تھے۔ سینگ دار تھے اور خصی تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25046]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه ضعف لاضطراب عبدالله بن محمد بن عقيل فيه
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے وہ وقت دیکھا ہے جب ہم اپنی قربانی کے جانور کے پائے محفوظ کرکے رکھ لیتے تھے اور مہینے بعد انہیں کھالیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25047]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الصُّفَيْرَاءِ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ عِنْدَنَا سَعَةٌ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ وَلَبَنَيْنَاهَا، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ" . قَالَتْ: فَلَمَّا وَلِيَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا، فَجَعَلَ لَهَا بَابَيْنِ، قَالَتْ: فَكَانَتْ كَذَلِكَ، فَلَمَّا ظَهَرَ الْحَجَّاجُ عَلَيْهِ هَدَمَهَا، وَأَعَادَ بِنَاءَهَا الْأَوَّلَ. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے پاس وقت کی گنجائش ہوتی تو میں خانہ کعبہ کو شہید کر کے از سر نو اس کی تعمیر کرتا اور اس کے دو دروازے بناتا، ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے، پھر جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو انہوں نے اس عمارت کو گرا کر اس کے دروازے بنا دیئے اور وہ تعمیر اسی طرح رہی، پھر جب حجاج بن یوسف ان پر غالب آیا گیا تو اس نے خانہ کعبہ کو دوبارہ شہید کر کے پہلی تعمیر پر لوٹا دیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25048]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف إسماعيل بن عبدالملك
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود کی میں کسی مرد یا عورت کی نقل اتارنے لگی اور اس کے ٹھگنے ہونے کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اس کی غیبت کی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25049]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کسی مرد یا عورت کی نقل اتارنے لگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے اس سے بھی زیادہ کوئی چیز بدلے میں ملے تو میں پھر بھی کسی کی نقل نہ اتاروں اور نہ اسے پسند کروں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25050]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح