حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18912]
امام زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدجب وہ لوگ یزید کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور فرمایا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو تو بتائیے؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کیا آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ پر غالب آجائیں گے واللہ اگر آپ وہ مجھے دے دیں تو میری جان سے گذر کر ہی کوئی آدمی اس تک پہنچ سکے گا ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال تو نہیں کرتا البتہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18913]
حضرت مروان رضی اللہ عنہ اور مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب بنوہوازن کے مسلمانوں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال و دولت واپس کردیا جائے (کیونکہ اب وہ مسلمان ہوگئے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے ساتھ جتنے لوگ ہیں تم انہیں دیکھ رہے ہو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو یا قیدی یا مال؟ میں تمہیں سوچنے کا وقت دیتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد دس سے کچھ اوپر راتیں انہیں سوچنے کی مہلت دی جب انہیں یقین ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو وہ کہنے لگے کہ ہم قیدیوں کو چھڑانے والی صورت کو ترجیح دیتے ہیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء اس کے شایان شان کی پھر امابعد کہہ کر فرمایا کہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میری رائے یہ بن رہی ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس لوٹادوں سو تم میں سے جو شخص اپنے دل کی خوشی سے ایسا کرسکتا ہو تو وہ ایسا ہی کرلے؟ لوگ کہنے لگے کہ ہم خوشی سے اس کی اجازت دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں کیا معلوم کہ تم میں سے کس نے اپنی خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں؟ اس لئے اب تم لوگ واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے بڑے ہمارے سامنے تمہاری اجازت کا معاملہ پیش کریں چناچہ لوگ واپس چلے گئے پھر ان کے بڑوں نے ان سے بات کی اور واپس آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب نے اپنی خوشی سے ہی اجازت دی ہے بنوہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18914]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2307، ابن أخي ابن شهاب حديثه فوق الحسن. وهذا الحديث من مراسيل الصحابة
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو کہ غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے " سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر بنادیا تھا چناچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے، انصار کو جب ان کے آنے کا پتہ چلا تو وہ نماز فجر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر پڑھ کر فارغ ہوئے تو وہ سامنے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرا پڑے اور فرمایا شاید تم نے ابوعبیدہ کی واپسی اور ان کے کچھ لے آنے کی خبر سنی ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور اس چیز کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوجاؤگے واللہ مجھے تم پر فقر و فاقہ کا اندیشہ نہیں بلکہ مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا اسی طرح کشادہ کردی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی اور تم اس میں ان ہی کی طرح مقابلہ بازی کرنے لگوگے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18915]
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حلال ہوچکی ہو لہٰذا نکاح کرسکتی ہو۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18917]
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی اجازت مانگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے دوسرا نکاح کرلیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18918]
حضرت مسور رضی اللہ عنہ اور مروان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اس کا شعار کیا اور وہاں سے احرام باندھ لیا حدیبیہ میں حلق کرلیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا حکم دیا اور حلق کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا حکم دیا۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18920]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے کوئی بیع کی یا کسی کو کوئی بخشش دی تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (جو ان کے بھانجے تھے) نے کہا کہ بخدا! عائشہ رضی اللہ عنہ کو رکنا پڑے گا ورنہ میں انہیں اب کچھ نہیں دوں گا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو فرمایا کیا اس نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے بتایاجی ہاں! فرمایا میں اللہ کے نام پر منت مانتی ہوں کہ آج کے بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن اسود رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ طفیل بن حارث " جو کہ ازدشنوہ کے ایک فرد تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ماں شریک بھائی بھائی تھے " سے مروی ہے۔۔۔۔۔ پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن اسود رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18921]