ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہیں وکیع نے سفیان سے خبر دی، انہوں نے مطرف سے سنا، انہوں نے شعبی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوجحیفہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں، مگر اللہ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے۔ یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔ میں نے پوچھا، اس صحیفے میں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 111]
ہم سے ابونعیم الفضل بن دکین نے بیان کیا، ان سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ قبیلہ خزاعہ (کے کسی شخص) نے بنو لیث کے کسی آدمی کو اپنے کسی مقتول کے بدلے میں مار دیا تھا، یہ فتح مکہ والے سال کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی، آپ نے اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ اللہ نے مکہ سے قتل یا ہاتھی کو روک لیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس لفظ کو شک کے ساتھ سمجھو، ایسا ہی ابونعیم وغیرہ نے «القتل» اور «الفيل» کہا ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے لوگ «الفيل» کہتے ہیں۔ (پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ اللہ نے ان پر اپنے رسول اور مسلمانوں کو غالب کر دیا اور سمجھ لو کہ وہ (مکہ) کسی کے لیے حلال نہیں ہوا۔ نہ مجھ سے پہلے اور نہ (آئندہ) کبھی ہو گا اور میرے لیے بھی صرف دن کے تھوڑے سے حصہ کے لیے حلال کر دیا گیا تھا۔ سن لو کہ وہ اس وقت حرام ہے۔ نہ اس کا کوئی کانٹا توڑا جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور اس کی گری پڑی چیزیں بھی وہی اٹھائے جس کا منشاء یہ ہو کہ وہ اس چیز کا تعارف کرا دے گا۔ تو اگر کوئی شخص مارا جائے تو (اس کے عزیزوں کو) اختیار ہے دو باتوں کا، یا دیت لیں یا بدلہ۔ اتنے میں ایک یمنی آدمی (ابوشاہ نامی) آیا اور کہنے لگا (یہ مسائل) میرے لیے لکھوا دیجیئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوفلاں کے لیے (یہ مسائل) لکھ دو۔ تو ایک قریشی شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اذخر کاٹنے کی اجازت دے دیجیئے) کیونکہ اسے ہم گھروں کی چھتوں پر ڈالتے ہیں۔ (یا مٹی ملا کر) اور اپنی قبروں میں بھی ڈالتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (ہاں) مگر اذخر، مگر اذخر۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 112]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو نے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے وہب بن منبہ نے اپنے بھائی کے واسطے سے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے علاوہ مجھ سے زیادہ کوئی حدیث بیان کرنے والا نہیں تھا۔ مگر وہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔ دوسری سند سے معمر نے وہب بن منبہ کی متابعت کی، وہ ہمام سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 113]
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے، انہیں یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن عبداللہ سے، وہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں شدت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سامان کتابت لاؤ تاکہ تمہارے لیے ایک تحریر لکھ دوں، تاکہ بعد میں تم گمراہ نہ ہو سکو، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تکلیف کا غلبہ ہے اور ہمارے پاس اللہ کی کتاب قرآن موجود ہے جو ہمیں (ہدایت کے لیے) کافی ہے۔ اس پر لوگوں کی رائے مختلف ہو گئی اور شور و غل زیادہ ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو، میرے پاس جھگڑنا ٹھیک نہیں، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما یہ کہتے ہوئے نکل آئے کہ بیشک مصیبت بڑی سخت مصیبت ہے (وہ چیز جو) ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کی تحریر کے درمیان حائل ہو گئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 114]