خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کسی مقام پر اترے تو وہ اس وقت یہ دعا پڑھے: «أعوذ بكلمات الله التامة من شر ما خلق- لم يضره في ذلك المنزل شيء حتى يرتحل منه»”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ تعالیٰ کے تمام کلمات کی ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کیا“ تو اس مقام پر کوئی چیز اسے ضرر نہیں پہنچا سکتی یہاں تک کہ وہ وہاں سے روانہ ہو جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3547]
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا عامل مقرر کیا، تو مجھے نماز میں کچھ ادھر ادھر کا خیال آنے لگا یہاں تک کہ مجھے یہ یاد نہیں رہتا کہ میں کیا پڑھتا ہوں، جب میں نے یہ حالت دیکھی تو میں سفر کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ”کیا ابن ابی العاص ہو“؟، میں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ نے سوال کیا: ”تم یہاں کیوں آئے ہو“؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے نماز میں طرح طرح کے خیالات آتے ہیں یہاں تک کہ مجھے یہ بھی خبر نہیں رہتی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شیطان ہے، تم میرے قریب آؤ، میں آپ کے قریب ہوا، اور اپنے پاؤں کی انگلیوں پر دو زانو بیٹھ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے میرا سینہ تھپتھپایا اور اپنے منہ کا لعاب میرے منہ میں ڈالا، اور (شیطان کو مخاطب کر کے) فرمایا: «اخرج عدو الله»”اللہ کے دشمن! نکل جا“؟ یہ عمل آپ نے تین بار کیا، اس کے بعد مجھ سے فرمایا: ”اپنے کام پر جاؤ“ عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قسم سے! مجھے نہیں معلوم کہ پھر کبھی شیطان میرے قریب پھٹکا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3548]
ابولیلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ آپ کے پاس ایک اعرابی نے آ کر کہا: میرا ایک بیمار بھائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا: ”تمہارے بھائی کو کیا بیماری ہے“؟ وہ بولا: اسے آسیب ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اسے لے کر آؤ“، ابولیلیٰ کہتے ہیں کہ وہ (اعرابی) گیا اور اسے لے آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے سامنے بیٹھایا، میں نے آپ کو سنا کہ آپ نے اسے دم کیا، سورۃ فاتحہ، سورۃ البقرہ کی ابتدائی چار آیات اور درمیان کی دو آیتیں، اور «وإلهكم إله واحد» والی آیت، آیت الکرسی، پھر سورۃ البقرہ کی آخری تین آیات، آل عمران کی آیت (جو میرے خیال میں) «شهد الله أنه لا إله إلا هو» ہے، سورۃ الاعراف کی آیت «إن ربكم الله الذي خلق»، سورۃ مومنون کی آیت «ومن يدع مع الله إلها آخر لا برهان له به»، سورۃ الجن کی آیت «وأنه تعالى جد ربنا ما اتخذ صاحبة ولا ولدا» اور سورۃ الصافات کے شروع کی دس آیات، اور سورۃ الحشر کی آخری تین آیات، سورۃ «قل هو الله أحد» اور معوذتین کے ذریعے، تو اعرابی شفایاب ہو کر کھڑا ہو گیا، اور ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3549]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12154، ومصباح الزجاجة: 1239) (منکر)» (سند میں ابو جناب الکلبی کثرت تدلیس کی وجہ سے ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو جناب بن أبي حية: ضعيف مدلس كما قال البوصيري (انظر ضعيف سنن أبي داود: 551) ولأبي جناب لون آخر في زوائد المسند لأحمد (128/5) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 505