انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عرینہ کے چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آئے، انہیں مدینہ کی آب و ہوا راس نہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اگر تم ہمارے اونٹوں کے ریوڑ میں جاؤ، اور ان کا دودھ اور پیشاب پیو تو صحت مند ہو جاؤ گے“۱؎ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، پھر وہ اسلام سے پھر گئے (مرتد ہو گئے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کو قتل کر کے آپ کے اونٹوں کو ہانک لے گئے، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گرفتار کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا، چنانچہ وہ گرفتار کر کے لائے گئے، تو آپ نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے، ان کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائی پھیر دی، ۲؎ اور انہیں حرہ ۳؎ میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2578]
وضاحت: ۱؎: معلوم ہوا کہ حلال جانور کا پیشاب پاک ہے، ورنہ اس کے پینے کی اجازت نہ ہوتی، کیونکہ حرام اور نجس چیز سے علاج درست نہیں۔ ۲؎: یہ سزا قصاص کے طور پر تھی کیونکہ انہوں نے بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہوں کے ساتھ ایسے ہی کیا تھا۔ ۳؎: مدینہ منورہ کے مشرقی اور مغربی حصہ میں سیاہ پتھریلی جگہ کو حرہ کہتے ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کر دیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاتھ پیر کاٹ دئیے اور ان کی آنکھیں پھوڑ دیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2579]
وضاحت: ۱؎: دوسری روایت میں ہے کہ پیاس کے مارے تڑپتے رہے لیکن کسی نے ان کو پانی نہیں دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے، یہ آنکھیں پھوڑنا اور پانی نہ دینا تشدد کے لئے نہ تھا بلکہ اس لئے تھا کہ انہوں نے کئی کبیرہ گناہ کئے تھے، ارتداد، قتل، لوٹ پاٹ، ناشکری وغیرہ۔ بعضوں نے کہا کہ یہ قصاص میں تھا کیونکہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چرواہے کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، غرض بدکار، بدفعل، بے رحم اور ظالم پر ہرگز رحم نہ کرنا چاہئے، اور اس کو ہمیشہ سخت سزا دینی چاہئے تاکہ عام لوگ تکلیف سے محفوظ رہیں، اور یہ عام لوگوں پر عین رحم و کرم ہے کہ ظالم کو سخت سزا دی جائے، اور ظالم پر رحم کرنا غریب رعایا پر ظلم ہے۔