الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



سنن ابن ماجه
كتاب المساجد والجماعات
کتاب: مسا جد اور جماعت کے احکام و مسائل
18. بَابُ: صَلاَةِ الْعِشَاءِ وَالْفَجْرِ فِي جَمَاعَةٍ
18. باب: عشاء اور فجر باجماعت پڑھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 796
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ ، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ وَصَلَاةِ الْفَجْرِ لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر لوگوں کو عشاء اور فجر کی نماز کا ثواب معلوم ہو جائے، تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آئیں، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 796]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17428)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/80) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اگر چل نہ سکے تو ہاتھ اور سرین (چوتڑ) کے بل جماعت میں آئیں، اس حدیث سے عشاء اور فجر کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے، اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان دونوں نمازوں کا وقت نیند اور سستی کا وقت ہوتا ہے، اور نفس پر بہت شاق ہوتا ہے کہ آرام چھوڑ کر نماز کے لئے حاضر ہو، اور جو عبادت نفس پر زیادہ شاق ہو اس میں زیادہ ثواب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 797
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، أَنْبَأَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَثْقَلَ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ وَصَلَاةُ الْفَجْرِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: منافقین پر سب سے بھاری عشاء اور فجر کی نماز ہے، اگر وہ ان دونوں نمازوں کا ثواب جان لیں تو مسجد میں ضرور آئیں گے، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 797]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/الصلاة 28 (651)، (تحفة الأشراف: 12521)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 9 (615)، 32 (654)، 72 (721)، الشہادات30 (2689)، سنن الترمذی/الصلاة 52 (225)، سنن النسائی/المواقیت 21 (541)، موطا امام مالک/الصلاة 1 (3)، مسند احمد (2/236، 278، 303، 375، 376، 424، 466)، سنن الدارمی/الصلاة 53 (1309) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 798
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:" مَنْ صَلَّى فِي مَسْجِدٍ جَمَاعَةً أَرْبَعِينَ لَيْلَةً لَا تَفُوتُهُ الرَّكْعَةُ الْأُولَى مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا عِتْقًا مِنَ النَّارِ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جس شخص نے مسجد میں چالیس دن تک جماعت کے ساتھ نماز پڑھی، اور نماز عشاء کی پہلی رکعت فوت نہ ہوئی، تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں اس کے لیے جہنم سے آزادی لکھ دے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 798]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10415، ومصباح الزجاجة: 299) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں عمارة کی ملاقات انس رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، اور اسماعیل بن عیاش مدلس ہیں، ا س لئے «لا تفوته الركعة الأولى من صلاة العشاء» کا ٹکڑا صحیح نہیں، بقیہ حدیث دوسرے شواہد کی بناء پر درجہ حسن تک پہنچتی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2652)

وضاحت: ۱؎: اور ابوداؤد میں ہے کہ ہر شے کی ایک عمدگی ہے، اور نماز کی عمدگی تکبیر اولی ہے، اس لئے اس پر محافظت کرو، نیز اس حدیث کی روشنی میں بعض لوگوں نے کہا ہے کہ جس شخص نے جماعت کی پہلی رکعت پائی اس نے گویا تکبیر تحریمہ امام کے ساتھ پائی، کیونکہ دوسری روایت میں رکعت اولی کے بدل تکبیر اولی ہے، اور تکبیر اولی پانے میں تین قول ہیں، ایک یہ کہ امام کی تکبیر کے ساتھ ہی شریک ہو، دوسرے یہ کہ امام کی قرأت سے پہلے نماز میں شریک ہو جائے، تیسرے یہ کہ رکوع سے پہلے شریک ہو جائے، اور اخیر قول میں آسانی ہے، مولانا وحید الزمان فرماتے ہیں کہ صرف رکوع پانے سے بہت سے اہل حدیث کے نزدیک رکعت نہیں ہوتی، پس تکبیر اولی بھی نہ پائے، ہاں اگر اتنی مہلت پائے کہ سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو وہ رکعت مل جائے گی، اور اس صورت میں گویا تکبیر اولی اس نے پا لی، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون قوله لا تفوته الركعة الأولى من صلاة العشاء

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال البوصيري: ’’ عمارة لم يدرك أنسًا ولم يلقه‘‘ فالسند منقطع
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 407