جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو عمر بھر کے لیے کوئی چیز دے دی گئی اور اس کے بعد اس کے آنے والوں کے لیے بھی کہہ دی گئی ہو تو وہ عمریٰ اس کے اور اس کی اولاد کے لیے ہے، جس نے دیا ہے اسے واپس نہ ہو گی، اس لیے کہ دینے والے نے اس انداز سے دیا ہے جس میں وراثت شروع ہو گئی ہے ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3553]
ابن شہاب زہری سے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح اسے عقیل اور یزید ابن حبیب نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے، اور اوزاعی پر اختلاف کیا گیا ہے کہ کبھی انہوں نے ابن شہاب سے «ولعقبه» کے الفاظ کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں اور اسے فلیح بن سلیمان نے بھی مالک کی حدیث کے مثل روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3554]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں جس عمریٰ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی ہے وہ ہے کہ دینے والا کہے کہ یہ تمہاری اور تمہاری اولاد کی ہے (تو اس میں وراثت جاری ہو گی اور دینے والے کی ملکیت ختم ہو جائے گی) لیکن اگر دینے والا کہے کہ یہ تمہارے لیے ہے جب تک تم زندہ رہو (تو اس سے استفادہ کرو) تو وہ چیز (اس کے مرنے کے بعد) اس کے دینے والے کو لوٹا دی جائے گی۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3555]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3160)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الھبات 4 (1626)، مسند احمد (3/296) (صحیح)»
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رقبیٰ اور عمریٰ نہ کرو جس نے رقبیٰ اور عمریٰ کیا تو یہ جس کو دیا گیا ہے اس کا اور اس کے وارثوں کا ہو جائے گا ۱؎“۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3556]
وضاحت: ۱؎: رقبیٰ یہ ہے کہ کسی مکان وغیرہ کو یہ کہہ کر دے کہ اگر میں پہلے مر گیا تو یہ مکان تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم پہلے مر گئے تو میں واپس لے لوں گا اور عمری بھی قریب قریب یہی ہے کہ کسی کو مکان، زمین وغیرہ عمر بھر کے لئے دے، یہ روکنا غالباً دینے والوں اور ورثاء کے درمیان فتنے اور لڑائی کے ڈر سے ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1625) مشكوة المصابيح (3013)
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک عورت کے سلسلہ میں فیصلہ کیا جسے اس کے بیٹے نے کھجور کا ایک باغ دیا تھا پھر وہ مر گئی تو اس کے بیٹے نے کہا کہ یہ میں نے اسے اس کی زندگی تک کے لیے دیا تھا اور اس کے اور بھائی بھی تھے (جو اپنا حق مانگ رہے تھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ باغ زندگی اور موت دونوں میں اسی عورت کا ہے“ پھر وہ کہنے لگا: میں نے یہ باغ اسے صدقہ میں دیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو یہ (واپسی) تمہارے لیے اور بھی ناممکن بات ہے“(کہیں صدقہ بھی واپس لیا جاتا ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3557]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 2283)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/299) (ضعیف)» (حبیب مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، او ر حمید کے بارے میں بھی بعض کلام ہے، ملاحظہ ہو: الارواء 6؍51)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف الثوري و حبيب عنعنا انوار الصحيفه، صفحه نمبر 126