عبید اللہ نے نافع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف کرتے تو تین چکر چھوٹے چھوٹے قدموں سے کندھے ہلا ہلا کر تیز چلتے ہو ئے لگاتے اورچا ر چکر چل کر لگا تے اور جب صفا مروہ کے چکر لگا تے تو وادی کی ترا ئی میں دوڑتے۔اور ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت اللہ کا پہلا طواف کرتے، تو تین چکروں میں رمل کرتے اور چار میں عام چال چلتے، اور جب صفا اور مروہ کے چکر لگاتے تو وادی کے اندر دوڑتے (نشیبی جگہ جس کی نشاندہی سبز ٹیوبوں سے کی گئی ہے) اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح کرتے تھے۔
موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم آنے (قدوم) کے بعد سب سے پہلے حج و عمرے کا جو طواف کرتے اس میں آپ بیت اللہ کے تین چکر وں میں تیز رفتا ری سے چلتے پھر (باقی) چا ر میں (عام رفتا ر سے) چلتے، پھر اس کے بعد دو رکعتیں ادا کرتے اور اس کے بعد صفا مروہ کے درمیان طواف کرتے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج اور عمرہ کے لیے پہنچتے ہی طواف کرتے، تو بیت اللہ کے تین چکر تیز چل کر لگاتے، پھر چار چکر معمول کی چال سے لگاتے، پھر دو رکعت طواف ادا فرماتے، اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگاتے۔
سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ جب مکہ آتے طواف فرماتے اس کے سات چکروں میں سے پہلے تین میں چھوٹے قدم اٹھا تے ہو ئے تیز چلتے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ پہنچتے دیکھا، جب پہنچتے ہی پہلا طواف کرتے، جب حجر اسود کا استلام کرتے، (بوسہ دیتے) سات میں سے تین چکروں میں رمل کرتے۔
ہمیں ابن مبارک نے حدیث بیا ن کی، ہمیں عبیداللہ نے نافع سےخبر دی (کہا:) انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انھوں نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا، اور (باقی) چار میں چلے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا، اور چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے۔
سلیم بن اخضر نے عبیداللہ بن عمر سے مذکورہ بالا سند کے ساتھ حدیث بیا ن کی کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا، اوربتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا۔
نافع بیان کرتے ہیں، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا تھا۔
عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی جبکہ یحییٰ نے کہا اور الفاظ انھی کے ہیں: میں نے مالک کے سامنے قراءت کی (کہ) جعفر بن محمد نے اپنے والد سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےفرمایا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حجر اسود سے دوبارہ وہاں تک پہنچنے تک، تین چکروں میں رمل کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکروں میں حجر اسود سے اس تک پہنچنے تک رمل کیا۔
عبداللہ بن وہب نے کہا: مجھے مالک اورابن جریج نے خبر دی، انھوں نے جعفر بن محمد سے، انھوں نے ا پنے والد (محمد باقر) سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چکروں میں حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا۔
عبدالواحد بن زیاد نےہمیں حدیث سنائی، (کہا:) ہمیں جریری نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عرض کی: آپ کی کیا رائے ہے بیت اللہ کاطواف کرتے ہوئے تین چکروں میں رمل اور چار چکروں میں چلنا، کیا یہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ یہ سنت ہے۔کہا: (انھوں نے) فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔میں نے کہا: آپ کے اس جملے کا کہ انھوں نے درست بھی کہا اورغلط بھی، کیامطلب ہے؟انھوں نے فرمایا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا: محمد اوران کے ساتھی (مدینے کی ناموافق آب وہوا، بخار اور) کمزوری کے باعث بیت اللہ کا طواف نہیں کرسکتے۔کفار آپ سے حسد کرتے تھے۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: (ان کی با ت سن کر) آپ نے انھیں (صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین کو) حکم دیا کہ تین چکروں میں رمل کرو اورچار چکروں میں (عام رفتار سے) چلو۔ (ابوطفیل رضی اللہ عنہ نے) کہا: میں نے ان (ابن عباس رضی اللہ عنہ) سے عرض کی: مجھے سوار ہوکرصفا مروہ کی سعی کرنے کے متعلق بھی بتائیے، کیاوہ سنت ہے؟کیونکہ آپ کی قوم کے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اور غلط بھی، میں نے کہا: اس بات کا کیا مطلب ہے کہ انھوں نےصحیح بھی کہا اورغلط بھی؟انھوں نےفرمایا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم پرلوگوں کا جمگھٹا ہوگیا، وہ سب (آپ کو دیکھنے کے خواہش مندتھے اور ایک دوسرے سے) کہہ رہے تھے۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔یہ ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم حتیٰ کہ نوجوان عورتیں بھی گھروں سے نکلی۔ (ابن عباس رضی اللہ عنہ نے) کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے (ہٹانے کےلئے) لوگوں کو مارانہیں جاتا تھا، جب آپ (کے راستے) پر لوگوں کا ٹھٹھہ لگ گیا تو آپ سوار ہوگئے۔ (کچھ حصے میں) چلنا اور (کچھ میں) سعی کرنا (تیز چلنا ہی) افضل ہے۔ (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصل میں یہی کرنا چاہتے تھے۔)
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا، بتلائیے کیا بیت اللہ کے تین چکروں میں رمل کرنا، اور چار چکروں میں چلنا، کیا سنت ہے؟ کیونکہ آپ کی قوم اس کو سنت خیال کرتی ہے، انہوں نے جواب دیا، وہ ٹھیک بھی کہتے ہیں اور غلط بھی، میں نے پوچھا، آپ کے قول (صَدَقُوْا وَ كَذَبُوْا)
یزید (بن زریع تمیمی) نے حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں جریری نے اسی سند سے خبر دی، البتہ اس نے یہ کہا کہ اہل مکہ حاسد لوگ تھے، یہ نہیں کہا ہ وہ آ پ سے حسد کرتے تھے۔
امام صاحب مذکورہ بالا روایت ایک اور استاد سے نقل کرتے ہیں کہ لیکن اس میں یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: مکہ کے لوگ حاسد تھے، یہ نہیں کہا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے۔
ابن ابی حسین نے ابو طفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کی قوم کا خیال ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ (کے طواف میں) اورصفا مروہ کے درمیان میں رمل کیا تھا، اور یہ سنت ہے۔انھوں نے فرمایا: انھوں نے صحیح بھی کہا اورغلط بھی۔
ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، آپ کی قوم یہ سمجھتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں رمل کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان چکر لگائے اور یہ سنت ہے، انہوں نے جواب دیا، انہوں نے سچ کہا اور جھوٹ بھی بولا۔
عبدالملک بن سعید بن ابجر نے ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: میرا خیال ہے کہ میں نے (حجۃ الوداع کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاتھا۔ (انھوں نے) کہا: ان کی صفت (تمھیں کس طرح نظر آئی) بیان کرو۔میں نے عرض کی: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ کے پاس اونٹنی پر (سوار) دیکھا تھا، اور آپ (کو دیکھنے کےلئے) لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: (ہاں) وہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔لوگوں کوآپ سے (دورہٹانے کےلئے) دھکے دیئے جاتے تھے نہ انھیں ڈانٹا جاتاتھا۔
ابو طفیل بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے، انہوں نے کہا، مجھے دیکھنے کی کیفیت بتاؤ، میں نے کہا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مروہ کے پاس ایک اونٹنی پر دیکھا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرا ہوا تھا، تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور نہیں ہٹایا جاتا تھا، یا دھکے نہیں دیے جاتے تھے، نہ دور رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین (عمرہ قضا کےلیے) مکہ آئے تو انھیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کردیا تھا۔مشرکین نے کہا: کل تمھارے ہاں ایسے لوگ آرہے ہیں جنھیں بخار نے کمزور کردیا ہے۔اورانھیں اس سے بڑی تکلیف پہنچی ہے۔اور وہ لوگ حطیم کے ساتھ (لگ کر) بیٹھ گئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (اپنے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین) کو حکم دیا کہ بیت اللہ کے تین چکروں میں چھوٹے قدموں کی تیز، مضبوط چال چلیں، اور دونوں (یمانی) کونوں کےدرمیان عام چال چلیں تاکہ مشرکوں کوان کی مضبوطی نظرآجائے۔ (مسلمانوں کی مضبوط چال دیکھ کر) مشرکوں نے کہا: یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تمھارا خیال تھا کہ انھیں بخار نے کمزور کردیا ہے۔یہ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ مضبوط ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: انھیں پورے چکروں میں رمل نہ کرنے کاحکم دینے سے، آپ کو محض اس شفقت نے روکا جو آپ ان پر فرماتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی مکہ مکرمہ تشریف لائے اور انہیں یثرب (مدینہ) کے بخار نے کمزور کر ڈالا تھا، مشرکوں نے کہا، کل تمہارے ہاں ایسے لوگ آئیں گے، جنہیں بخار نے کمزور کر دیا ہے، اور انہیں اس سے تکلیف پہنچی ہے، تو وہ حجر کی طرف بیٹھ گئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو تین چکروں میں رمل کرنے کا حکم دیا، اور فرمایا: ”رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلیں (کیونکہ مشرکوں کو نظر نہیں آ سکتے تھے) تا کہ مشرکین ان کی قوت، طاقت کا مشاہدہ کر لیں۔“، مشرکین (دیکھ کر) کہنے لگے، یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تمہارا خیال تھا کہ بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے، یہ تو فلاں فلاں سے بھی زیادہ طاقت ور ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام چکروں میں رمل کرنے کا حکم محض ان پر شفقت فرماتے ہوئے نہیں دیا۔
عطاء نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا مروہ کی سعی اور بیت اللہ کے طواف میں رمل صرف مشرکین کواپنی (قوم کی) طاقت اور قوت دکھانے کے لیے کیا تھا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی اور بیت اللہ کے طواف میں رمل صرف مشرکوں کو اپنی قوت دکھانے کے لیے کیا تھا۔