ہم سے حاتم بن اسماعیل مدنی نے جعفر (الصادق) بن محمد (الباقرؒ) سے، انھوں نےاپنے والد سے ر وایت کی، کہا: ہم جابر بن عبداللہ کے ہاں آئے، انھوں نے سب کے متعلق پوچھنا شروع کیا، حتیٰ کہ مجھ پر آکر رک گئے، میں نے بتایا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، انھوں نے (ازراہ شفقت) اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، پھر میرا اوپر، پھر نیچے کا بٹن کھولا اور (انتہائی شفقت اورمحبت سے) اپنی ہتھیلی میرے سینے کے درمیان رکھ دی، ان دنوں میں بالکل نوجوان تھا، فرمانے لگے: میرے بھتیجے تمھیں خوش آمدید!تم جوچاہوپوچھ سکتے ہو، میں نے ان سے سوال کیا، وہ ان دنوں نابینا ہوچکے تھے۔ (اس وقت) نماز کا وقت ہوگیا تھا، اور موٹی بُنائی کا ایک کپڑا اوڑھنے والا لپیٹ کر (نماز کےلیے) کھڑے ہوگئے۔وہ جب بھی اس (کے ایک پلو) کو (دوسری جانب) کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی بناء پر اس کے دونوں پلوواپس آجاتے جبکہ ا ن کی (بڑی) چادر ان کے پہلو میں ایک کھونٹی پرلٹکی ہوئی تھی۔انھوں نے ہمیں نماز پڑھائی، (نماز سے فارغ ہوکر) میں نے عرض کی: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں بتائیے۔انھوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو گرہ بنائی، اور کہنے لگے: بلاشبہ نو سال ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توقف فرمایا، حج نہیں کیا، اس کےبعد دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروایا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم حج کررہے ہیں۔ (یہ اعلان سنتے ہی) بہت زیادہ لوگ مدینہ میں آگئے۔وہ سب اس بات کے خواہشمند تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں۔اور جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کریں اس پر عمل کریں۔ (پس) ہم سب آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچ گئے، (وہاں) حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنم دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھی بھیجا کہ (زچگی کی اس حالت میں اب) میں کیا کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غسل کرو، کپڑے کالنگوٹ کسو، اور حج کا احرام باندھ لو۔"پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذوالحلیفہ کی) مسجد میں نماز ادا کی۔اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوگئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر بیداء کے مقام پر سیدھی کھڑی ہوئی۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، تاحد نگاہ پیادے اورسوار ہی دیکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بھی یہی حال تھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان (موجود) تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرقرآن نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کی (حقیقی) تفسیر جانتے تھے۔جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ہم بھی اس پر عمل کرتے تھے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اللہ کی) توحید کا تلبیہ پکارا"لبیک اللہم لبیک .. لبیک لا شریک لک لبیک .. إن الحمد والنعمۃ لک والملک .. لا شریک لک"ان لوگوں نے وہی تلبیہ پکارا۔"اور لوگوں نے وہی تلبیہ پکارا جو (بعض الفاظ کے اضافے کے ساتھ) وہ آج پکارتے ہیں۔آپ نے ان کے تلبیہ میں کسی بات کو مسترد نہیں کیا۔اور اپنا وہی تلبیہ (جو پکاررہے تھے) پکارتے رہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہماری نیت حج کےعلاوہ کوئی (اور) نہ تھی، (حج کے مہینوں میں) عمرے کو ہم جانتے (تک) نہ تھے۔حتیٰ کہ جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کااستلام (ہاتھ یا ہونٹوں سے چھونا) کیا، پھر (طواف شروع کیا)، تین چکروں میں چھوٹے قدم اٹھاتے، کندھوں کوحرکت دیتے ہوئے، تیز چلے، اور چار چکروں میں (آرام سے) چلے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیمؑ کی طرف بڑھے اوریہ آیت تلاوت فرمائی (وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاہِیمَ مُصَلًّی) "اور مقام ابراہیم (جہاں آپ کھڑے ہوئے تھے) کو نماز کی جگہ بناؤ"۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیمؑ کواپنے اور بیت اللہ کے درمیان رکھا۔میرے والد (محمد الباقرؒ) کہا کر تے تھے۔اور مجھے معلوم نہیں کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےعلاوہ کسی اور (کے حوالے) سے یہ کہا ہو۔کہ آپ دو رکعتوں میں (قُلْ ہُوَ اللَّـہُ أَحَدٌ) اور (قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ) پڑھا کرتے تھے۔پھر آپ حجر اسود کے پاس تشریف لائے، اس کا استلام کیا اور باب (صفا) سے صفا (پہاڑی) کی جانب نکلے۔جب آپ (کوہ) صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت تلاوت فرمائی: (إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِن شَعَائِرِاللَّـہِ ۖ) "صفا اور مروہ اللہ کے شعائر (مقرر کردہ علامتوں) میں سے ہیں۔"میں (بھی سعی کا) وہیں سے آغاز کررہا ہوں جس (کےذکر) سے اللہ تعالیٰ نے آغاز فرمایا۔"اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفاسے (سعی کا) آغاز فرمایا۔اس پر چڑھتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کودیکھ لیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ رخ ہوئے، اللہ کی وحدانیت اورکبریائی بیان فرمائی۔اور کہا: "اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، وہ اکیلا ہے، ساری بادشاہت اسی کی ہے اورساری تعریف اسی کے لئے ہے۔اکیلے اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، اس نےاپنا وعدہ خوب پورا کیا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی، تنہا (اسی نے) ساری جماعتوں (فوجوں) کو شکست دی۔"ان (کلمات) کے مابین دعا فرمائی۔آپ نے یہ کلمات تین مرتبہ ارشادفرمائے تھے۔پھر مروہ کی طرف اترے۔حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک وادی کی ترائی میں پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی فرمائی، (تیز قدم چلے) جب وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےقدم مباک مروہ کی) چڑھائی چڑھنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم (معمول کی رفتار سے) چلنے لگے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مروہ کی طرف پہنچ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مروہ پر اسی طرح کیا جس طرح صفا پر کیا تھا۔جب مروہ پر آخری چکر تھا تو فرمایا: " اگر پہلے میرے سامنے وہ بات ہوتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا، اور اس (منسک) کو عمرے میں بدل دیتا، لہذا تم میں سے جس کے ہمرا ہ قربانی نہیں، وہ حلال ہوجائے اور اس (منسک) کو عمرہ قرار دے لے۔" (اتنے میں) سراقہ بن مالک جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے عرض کی: اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! (حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا) ہمارے اسی سال کے لئے (خاص) ہے یا ہمیشہ کے لئے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی (دونوں ہاتھوں کی) انگلیاں ایک دوسرے میں داخل کیں، اور فرمایا: "عمرہ، حج میں داخل ہوگیا۔"دو مرتبہ (ایسا کیا اورساتھ ہی فرمایا:) " صرف اسی سال کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔"حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی اونٹنیاں لے کرآئے، انھوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو احرام سے فارغ ہوچکے تھے۔، رنگین کپڑے پہن لیے تھے اورسرمہ لگایا ہوا ہے۔اسےا نھوں (حضرت علی رضی اللہ عنہ) نے ان کے لئے نادرست قرار دیا۔انھوں نے جواب دیا: میرے والدگرامی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ عراق میں کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس، اس کام کی وجہ سے جو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کیاتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے خلاف ابھارنے کے لئے گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کے متعلق پوچھنے کے لئے جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (یہ بھی) بتایا کہ میں نے ان کے اس کام (احرام کھولنے) پر اعتراض کیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سچ کہا ہے، اس نے بالکل سچ کہا ہے۔اورتم نے جب حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟"میں نے جواب دیا میں نے کہا تھا: اے اللہ! میں بھی اسی (منسک) کے لئے تلبیہ پکارتاہوں۔جس کے لئے تیرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلبیہ پکارا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میرے ساتھ قربانی ہے۔ (میں عمرے کے بعدحلال نہیں ہوسکتا اور تمھاری بھی نیت میری نیت جیسی ہے، لہذا) تم بھی عمرے سے فارغ ہونے کے بعد احرام مت کھولنا۔ (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے) کہا: جانوروں کی مجموعی تعداد جو حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے لائےتھے اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ لے کرآئے تھے۔ایک سوتھی۔پھر (عمرے کےبعد) تمام لوگوں نے (جن کے پاس قربانیاں نہیں تھیں) احرام کھول لیا اور بال کتروالیے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ لوگ جن کے ہمراہ قربانیاں تھیں (انھوں نے احرام نہیں کھولا)، جب ترویہ (آٹھ ذوالحجہ) کا دن آیا تو لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہوئے، حج (کا احرام باندھ کر اس) کا تلبیہ پکارا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر سوار ہوگئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں (منیٰ میں) ظہر، عصر، مغرب، عشاء اورفجر کی نمازیں ادا فرمائیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر ٹھہرے رہے حتیٰ کہ سورج طلو ع ہوگیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ بالوں سے بنا ہوا یک خیمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نمرہ میں لگا دیاجائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے، قریش کو اس بارے میں کوئی شک نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشعر حرام کے پاس جا کر ٹھر جائیں گے۔ جیسا کہ قریش جاہلیت میں کیا کرتے تھے۔ (لیکن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وہاں سے آگے) گزر گئے یہاں تک کہ عرفات میں پہنچ گئے۔وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وادی نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہواملا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں فروکش ہوگئے۔جب سورج ڈھلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی اونٹنی) قصواء کو لانے کا حکم دیا، اس پر آ پ کے لئے پالان کس دیا گیا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم و ادی (عرفہ) کے درمیان تشریف لے آئے، اور لوگوں کو خطبہ دیا: تمہارے خون اور اموال ایک دوسرے پر (ایسے) حرام ہیں جیسے آج کے دن کی حرمت اس مہینے اور اس شہر میں ہے اور زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے دونوں پیروں کے نیچے رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ کا خون ہے کہ وہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا (یعنی اس وقت کا چڑھا سود کوئی نہ لے) اور پہلے جو سود ہم اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑتے ہیں (اور طلب نہیں کرتے) وہ عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لئے کہ وہ سب چھوڑ دیا گیا اور تم لوگ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اس لئے کہ ان کو تم نے اللہ تعالیٰ کی امان سے لیا ہے اور تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ (نکاح) سے حلال کیا ہے۔ اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو، حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ ان کی روٹی اور ان کا کپڑا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو گے (وہ ہے) اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اور تم سے (قیامت میں) میرے بارے میں سوال ہو گا تو پھر تم کیا کہو گے؟ ان سب نے عرض کیا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیرخواہی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت (شہادت کی انگلی) آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے کہ اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا، اے اللہ! گواہ رہنا۔ تین بار (یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا) پھر اذان اور تکبیر ہوئی تو ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھائی اور ان دونوں کے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت و نفل وغیرہ) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر موقف میں آئے اونٹنی کا پیٹ پتھروں کی طرف کر دیا اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور غروب آفتاب تک وہیں ٹھہرے رہے۔ زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی تب (سوار ہوئے) سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو پیچھے بٹھا لیا اور واپس (مزدلفہ کی طرف) لوٹے اور قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر کجاوہ کے (اگلے حصے) مورک سے لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا ہوتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ اے لوگو! آہستہ آہستہ آرام سے چلو اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی (آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھیں اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے۔ (سبحان اللہ کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ دن رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یادداشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ ان پر رحمت کرے) یہاں تک کہ صبح ہوئی جب فجر ظاہر ہو گئی تو اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز فجر پڑھی پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لا الٰہ الا اللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ بخوبی روشنی ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے طلوع آفتاب سے قبل لوٹے اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل رضی اللہ عنہ ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو عورتوں کا ایک ایسا گروہ چلا جاتا تھا کہ ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی جاتی تھیں اور سیدنا فضل صان کی طرف دیکھنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا۔ سبحان اللہ یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل رضی اللہ عنہ نے اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا تیز چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلتی ہے، یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں۔ ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے، ایسی کنکریاں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منیٰ، عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر (یعنی قربان) کئے، باقی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قربانی میں شریک کیا اور پھر ہر اونٹ سے گوشت ایک ٹکڑا لینے کا حکم فرمایا۔ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق لے کر) ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربا پیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی بھرو اے عبدالمطلب کی اولاد! اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے تو سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی اور ان کی سقایت جاتی رہتی) پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔
جعفر بن محمد باقررحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم چند ساتھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے ہم سے دریافت کیا، کہ ہم کون کون ہیں، (ہر ایک نے اپنے متعلق بتایا) یہاں تک کہ میری باری آ گئی، تو میں نے بتایا کہ میں محمد بن علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوں، (حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے) تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، اور میرے کرتے کا اوپر والا بٹن کھولا اور پھر اس سے نیچے کا بٹن کھولا، پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں پستانوں کے درمیان (میرے سینے پر) رکھی، اور میں ان دنوں بالکل نوجوان لڑکا تھا، اور فرمایا: اے میرے بھتیجے! تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں، تم جو چاہو مجھ سے (بے تکلف) پوچھ سکتے ہو، میں نے ان سے پوچھا، وہ نابینا ہو چکے تھے، اور نماز کا وقت ہو چکا تھا، تو وہ ایک چادر لپیٹ کر کھڑے ہو گئے، وہ جب اسے اپنے کندھوں پر رکھتے تو اس کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے، اس کے کنارے ان کی طرف لوٹ آتے، (نیچے گر جاتے) حالانکہ ان کی بڑی چادر ان کے پہلو میں کھونٹی یا ٹیبل پر پڑی ہوئی تھی، مگر انہوں نے بڑی چادر اوڑھ کر نماز پڑھانا ضروری خیال نہ کیا، چھوٹی چادر کو لپیٹ کر ہی نماز پڑھائی) انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی (نماز سے فراغت کے بعد) میں نے پوچھا، مجھے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں (تفصیلا) بتائیں۔ انہوں نے ہاتھ کی انگلیوں سے نو کی گنتی کا اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو (9) سال تک (مدینہ) رہے اور کوئی حج نہ کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں سال لوگوں میں اعلان کروایا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے لیے جانے والے ہیں، اس اطلاع سے بہت بڑی تعداد میں لوگ مدینہ آ گئے، ہر ایک کی آرزو اور خواہش یہ تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل جیسا عمل کرے، (آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی پوری پوری پیروی کرے) ہم سب لوگ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی معیت میں (مدینہ سے) روانہ ہوئے، حتی کہ ذوالحلیفہ پہنچ گئے، تو یہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیدا ہوئے، تو حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیغام بھیجا کہ ایسی حالت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر احرام باندھ لو۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں (ظہر کی) نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو گئے، حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی اونٹنی مقام بیداء پر پہنچی، تو میں نے اپنی حد نظر تک آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے آگے سوار اور پیدل لوگ دیکھے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے دائیں طرف بھی یہی کیفیت تھی اور بائیں طرف بھی یہی حالت تھی، (حد نظر تک ہر طرف آدمی ہی آدمی سوار اور پیادہ نظر آ رہے تھے) اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پیچھے بھی یہی صورت تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ پر ہی قرآن نازل ہوتا تھا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہی اس کی حقیقت (اس کا صحیح مطلب و مدعا) جانتے تھے، ہمارا رویہ یہ تھا کہ جو کچھ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کرتے تھے، ہم بھی وہی کچھ کرتے تھے (ہم نے ہر عمل میں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی پیروی کی) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے بلند آواز سے (بیداء پر) توحید کا یہ تلبیہ کہا: (لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ) اور لوگوں نے وہ تلبیہ پڑھا جو اب پڑھتے ہیں، (جس میں آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے تلبیہ پر بعض الفاظ کا اضافہ تھا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے تلبیہ کی تردید اور تغلیط نہیں کی اور خود اپنا تلبیہ ہی پڑھتے رہے (اپنے تلبیہ کی پابندی کی) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہم عمرہ کو نہیں جانتے تھے، (عمرہ ہمارے ذہن میں نہیں تھا) یہاں تک کہ ہم (سفر پورا کر کے) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے ساتھ بیت اللہ پہنچ گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حجر اسود کو بوسہ دیا (اور طواف شروع کر دیا) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا، (وہ چال چلے جس سے قوت و شجاعت کا اظہار ہوتا تھا) اور باقی چار چکروں میں معمول کے مطابق چلے پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مقام ابراہیم علیہ السلام کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی: ﴿وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى﴾ (البقرہ، آیت نمبر 125) (اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ۔) اور مقام ابراہیم کے پاس نماز پڑھو، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس طرح کھڑے ہوئے کہ مقام ابراہیم آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا، میرے باپ (محمد باقررحمة الله عليه) بیان کرتے تھے اور میرے علم کے مطابق وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہی بتاتے تھے کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے دوگانہ، طواف میں ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ﴾ اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ پڑھی، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رکن (حجر اسود) کی طرف واپس آئے اور اسے چوما، (یہ چومنا سعی کے لیے تھا) پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ باب صفا سے صفا کی طرف چلے گئے، تو جب صفا کے قریب پہنچے، یہ آیت پڑھی: ﴿إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ﴾ (البقرہ: 158) (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں) میں اس جگہ سے آغاز کرتا ہوں، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے، تو صفا سے ابتدا کی اور اس پر اس حد تک اوپر چڑھے کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو بیت اللہ نظر آنے لگا، اس وقت آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبلہ کی طرف رخ کر کے کھڑے ہو گئے، اللہ کی توحید اور کبریائی بیان فرمائی اور یہ دعا پڑھی: (لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ) (اللہ کے سوا کوئی عبادت و بندگی کے لائق نہیں، وہی تنہا معبود و مالک ہے، اس کا کوئی شریک ساجھی نہیں، ساری کائنات پر اس کی فرمانروائی ہے، اور حمد و ستائش کا حقدار وہی ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہی تنہا مالک و معبود ہے۔ اس نے (مکہ پر اقتدار بخشنے اور اپنے دین کو سر بلند کرنے کا) اپنا وعدہ پورا فر دیا، اپنے بندے کی اس نے (بھرپور) مدد فرمائی، (کفر و شرک کے لشکروں کو) تنہا اس نے شکست دی) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہ کلمات تین دفعہ فرمائے اور ان کے درمیان دعا مانگی، اس کے بعد مروہ کی طرف (جانے کے لیے) اترے حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے قدم وادی کے نشیب میں پہنچے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دوڑ پڑے، حتی کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے قدم نشیب سے اوپر آ گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عام رفتار کے مطابق چلے، یہاں تک کہ مروہ پر آ گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے یہاں بالکل وہی کچھ کیا جو صفا پر کیا تھا، یہاں تک کہ جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخری چکر پورا کر کے مروہ پر پہنچے تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے (ساتھیوں کو مخاطب کر کے) فرمایا: ”اگر پہلے میرے دل میں وہ بات آ جاتی، مجھے اس کا پہلے پتہ چل جاتا) جو بعد میں مجھے معلوم ہوئی، تو میں قربانی کے جانور مدینہ سے ساتھ نہ لاتا، اور اس طواف و سعی کو جو میں نے کیا ہے، عمرہ بنا دیتا، اس لیے تم میں سے جن کے ساتھ قربانی کے جانور نہیں آئے ہیں، وہ اپنا احرام ختم کر دیں، اور اپنے طواف و سعی کو عمرہ بنا دیں۔“ اس پر سراقہ بن مالک بن جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! کیا یہ حکم (کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کیا جائے) خاص ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے یہی حکم ہے؟ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے فرمایا: ”عمرہ حج میں داخل ہو گیا، عمرہ حج میں داخل ہو گیا، خاص اسی سال کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔“ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کے لیے (مزید) جانور لے کر آئے، انہوں نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دیکھا کہ وہ احرام ختم کر کے حلال ہو چکی ہیں اور رنگین کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور سرمہ بھی استعمال کیا ہے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر، ان پر اپنی ناگواری کا اظہار کیا، (اور ان کے اس طرز عمل کو غلط قرار دیا) تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، مجھے میرے باپ نے اس کا حکم دیا ہے، امام جعفر کہتے ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ عراق میں کہا کرتے تھے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، تاکہ انہیں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے خلاف بھڑکاؤں، کہ اس نے یہ حرکت کی ہے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سے وہ بات پوچھوں، جو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے بارے میں بیان کی تھی، تو میں نے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو بتایا کہ میں نے اس کی اس حرکت پر اعتراض کیا ہے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”اس نے (فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے) سچ کہا ہے، اس نے سچ بتایا ہے۔“ تو نے جب حج کی نیت کی تھی تو کیا کہا تھا؟“ میں نے کہا، میں نے یہ نیت کی تھی کہ میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں، جس کا احرام تیرے رسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے باندھا ہے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ”میں تو چونکہ قربانی کے جانور ساتھ لایا ہوں (اس لیے میں حج سے پہلے احرام ختم کر کے حلال نہیں ہو سکتا، اور تم نے میرے احرام کی نیت کی ہے) اس لیے تم حلال نہیں ہو سکتے۔“ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ قربانی کے جو جانور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور جو علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے لائے تھے، ان کی مجموعی تعداد سو تھی، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے سوا جو قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے، سب لوگوں نے احرام ختم کر دیا اور بال ترشوا کر حلال ہو گئے، پھر جب ترویہ کا دن (آٹھ ذوالحجہ کا دن) ہوا، سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا، (اور احرام ختم کر کے حلال ہونے والوں نے) حج کا احرام باندھ لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو گئے، (وہاں پہنچ کر) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھیں، پھر تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ جب سورج نکل آیا، (آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عرفات کی طرف چل پڑے) اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا بالوں سے بنے ہوئے خیمہ کو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے لیے مقام نمرہ میں گاڑ دیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے اور قریش کو اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں تھا، کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مشعر حرام کے پاس ٹھہریں گے، جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے آگے گزر کر عرفات پہنچ گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے دیکھا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کا خیمہ نمرہ میں نصب کر دیا گیا ہے، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وہاں اتر گئے، یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے قصواء پر کجاوا کسنے کا حکم دیا، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سوار ہو کر وادی عرفہ کے درمیان آ گئے، اور لوگوں کو خطبہ دیا، اور فرمایا: ”لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں، جس طرح کہ آج عرفہ کے دن، اس مبارک ماہ میں، تمہارے اس مقدس و محترم مہینے میں، خوب ذہن نشین کر لو کہ جاہلیت کی ساری چیزیں (تمام رسم و رواج) میرے دونوں قدموں کے نیچے پامال ہیں، (میں ان کے خاتمہ اور منسوخی کا اعلان کرتا ہوں) اور جاہلیت (اسلام کی روشنی سے پہلے کی تاریکی اور گمراہی کا زمانہ) کے خون بھی پامال ہیں، (اب کوئی آدمی زمانہ جاہلیت کے کسی خون کا بدلہ نہیں لے سکے گا۔) اور سب سے پہلے میں اپنے گھرانہ کے خون، ربیعہ بن حارث کے بیٹے کے خون کو معاف کرتا ہوں، (اس کا بدلہ نہیں لیا جائے گا) جو قبیلہ بنو سعد کے ایک گھر میں دودھ پیتا تھا، اور اسی قبیلہ ہذیل کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا، اور جاہلیت کے دور کے سودی مطالبات کو پامال کرتا ہوں، (اب کوئی مسلمان کسی سے اپنا سود وصول نہیں کر سکے گا) اور سب سے پہلے میں اپنے خاندان کے سود (اپنے چچا) عباس بن عبدالمطلب کے سود کے بارے میں اعلان کرتا ہوں، کہ وہ سب کا سب ختم کر دیا گیا ہے، (اب وہ کسی سے اپنا سود وصول نہیں کریں گے) اے لوگو! عورتوں کے (حقوق اور ان کے ساتھ برتاؤ کے) بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ کے حکم و قانون (نکاح کے کلمات) سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لیے حلال کر لیا ہے، تمہارا ان پر حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ بیٹھنے دیں، (اس کو تمہارے گھر آنے کا موقع نہ دیں) جس کا آنا تمہیں ناگوار ہو، اگر وہ ایسا کریں، تو انہیں ایسی مار مارو جو شدید نہ ہو، (تنبیہ اور آئندہ سدباب کے لیے کچھ خفیف سزا دے سکتے ہو) اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ دستور اور عرف کے مطابق، ان کے کھانے پینے اور پہننے کا بندوبست کرو، اور میں تمہارے اندر وہ سامان ہدایت چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم اس کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے (اس کی پیروی کرو گے) تو پھر ہرگز گمراہ نہ ہو گے، وہ ہے، اللہ کی کتاب، (قرآن، اس کا قانون، جو کتاب و سنت کی شکل میں موجود ہے) (قیامت کے دن) تم سے میرے بارے میں پوچھا جائے گا، (کہ میں نے تمہیں اللہ کی ہدایات اور احکام پہنچائے تھے یا نہیں) تو تم کیا جواب دو گے؟“ حاضرین نے عرض کیا، ہم گواہی دیں گے (اب بھی دیتے ہیں) کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اللہ کا پیغام اور احکام پہنچا دیے، (رہنمائی اور تبلیغ کا) حق اور فریضہ ادا کر دیا، نصیحت و خیر خواہی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے اور لوگوں کے مجمع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین دفعہ فرمایا: ”اے اللہ گواہ ہو جا، اے اللہ گواہ رہ! پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اذان اور اقامت کہلوائی، اور ظہر کی نماز پڑھائی، پھر اقامت کہلوائی اور عصر کی نماز پڑھائی، اور دونوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو کر (میدان عرفات میں) مقام وقوف پر تشریف لائے اور اپنی ناقہ قصواء کا رخ پتھر کی چٹانوں کی طرف کر دیا، اور پیدل چلنے والا مجمع اپنے سامنے کر لیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قبلہ رخ ہو گئے، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یہاں تک ٹھہرے رہے کہ سورج غروب ہو گیا، اور کچھ زردی ختم ہو گئی، حتی کہ جب سورج کی ٹکیا غائب ہو گئی تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ کی طرف واپس چل پڑے، جبکہ قصواء کی مہار اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ اس کا سر پالان کے اگلے حصہ سے لگ رہا تھا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اپنے دائیں ہاتھ کے اشارے سے کہہ رہے تھے: ”اے لوگو! سکینت و طمانیت اختیار کرو، سکینت اور نرمی سے چلو۔“ جب راستہ کے ٹیلوں میں سے کسی ٹیلے اور پہاڑی پر پہنچتے تو اونٹنی کی مہار کچھ ڈھیلی کر دیتے، تاکہ وہ اوپر چڑھ سکے حتی کہ مزدلفہ کو پہنچے، تو وہاں مغرب اور عشاء کی نماز ایک اذان اور دو تکبیروں سے پڑھی اور دونوں کے درمیان کسی قسم کی نفل نماز نہیں پڑھی، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو گئی، تو جب صبح اچھی طرح آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے سامنے واضح ہو گئی، آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ایک اذان اور اقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی، پھر اپنی اونٹنی قصواء پر سوار ہو کر مشعر حرام پر پہنچے، (جو مزدلفہ کے حدود میں ایک بلند ٹیلہ تھا) یہاں آ کر قبلہ رخ کھڑے ہو گئے، اللہ سے دعا کی، اس کی تکبیر، تہلیل و تمجید اور توحید کے کلمات کہتے ہوئے کھڑے رہے، یہاں تک کہ خوب اجالا ہو گیا، اور اچھی طرح روشنی پھیل گئی۔ پھر سورج نکلنے سے پہلے ہی منیٰ کی طرف لوٹے، اور اپنے پیچھے فضل بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سوار کر لیا، وہ خوبصورت بالوں والے، سفید رنگ اور خوبصورت نوجوان تھے، جب آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ منیٰ کو روانہ ہوئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے پاس سے عورتوں کی جماعت چلتی ہوئی گزری، تو حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، تو فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر کر دیکھنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ دوسری طرف پھیر کر فضل کے چہرہ پر رکھ دیا، وہ اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر کر دیکھنے لگتے، حتی کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وادی محسر کے درمیان پہنچ گئے، اور اپنی سواری کو کچھ تیز کر دیا، پھر درمیانی راستہ پر چلے، جو جمرہ کبریٰ (بڑا جمرہ) پر پہنچتا ہے، حتی کہ اس جمرہ پر آ گئے جو درخت کے پاس ہے، (یہی جمرہ کبریٰ یا جمرہ عقبہ تھا) اور اس پر سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے تھے، یہ سنگ ریزے چھوٹے چھوٹے تھے، جیسے انگلیوں میں رکھ کر پھینکے جاتے ہیں، (جو چنے اور مٹر کے دانے کے برابر ہوتے ہیں) آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے سنگریزے نشیبی جگہ سے پھینکے تھے، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قربان گاہ کی طرف پلٹے اور تریسٹھ (63) اونٹوں کو اپنے ہاتھ سے نحر کیا، پھر جو باقی رہ گئے، وہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالہ کر دیے، اور انہوں نے انہیں نحر کر دیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے انہیں اپنی قربانی میں شریک کر لیا، پھر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حکم دیا کہ قربانی کے ہر اونٹ سے ایک گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا جائے، یہ سارے ٹکڑے ایک دیگ میں ڈال کر پکائے گئے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں نے اس گوشت سے کھایا اور شوربا پیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ناقہ پر سوار ہو کر طواف افاضہ (طواف زیارت) کے لیے بیت اللہ کی طرف روانہ ہوئے، طواف کیا، اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ظہر کی نماز مکہ میں ادا فرمائی، اس کے بعد، بنو عبدالمطلب کے پاس آئے، جو زمزم سے پانی کھنچ کھنچ کر لوگوں کو پلا رہے تھے، تو آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ان سے فرمایا: ”اے عبدالمطلب کی اولاد! پانی کھینچو، اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو دوسرے لوگ تمہاری پانی کی خدمت پر غالب آ جائیں گے، (اس کو مناسک حج کا حصہ سمجھ کر تم سے ڈول چھین لیں گے) تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈول کھینچتا۔“ انہوں نے ایک ڈول بھر کر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو دیا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اس سے نوش فر لیا۔