اللؤلؤ والمرجان
كتاب صفات المنافقين وأحكامهم
کتاب: منافقوں کے اوصاف اور ان کے متعلق احکامات
920. باب سؤال اليهود النبيّ صلی اللہ علیہ وسلم عن الروح وقوله تعالى يسئلونك عن الروح الآية
920. باب یہود کا روح کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال اور فرمان الٰہی ’’آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں‘‘ کی تفسیر
حدیث نمبر: 1780
1780 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ يَتَوكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنَ الْيَهُودِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لاَ تَسْأَلُوهُ، لاَ يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ مَا الرُّوحُ فَسكَتَ فَقُلْتُ إِنَّهُ يُوحى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، فَقَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: اے ابو القاسم( صلی اللہ علیہ وسلم )! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمھیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔ (اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1780]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 47 باب قول الله تعالى (وما أوتيتم من العلم إلا قليلاً»

وضاحت: اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے۔ ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھر پور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ روح کے متعلق مزید تفصیلات امام ابن قیم کی کتاب الروح میں ملاحظہ فرمائیں۔ (راز)

حدیث نمبر: 1781
1781 صحيح حديث خَبَّابٍ قَالَ: كُنْتُ قَيْنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلَ دَيْنٌ فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ قَالَ لاَ أُعْطِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: لاَ أَكْفُرُ حَتَّى يُمِيتَكَ اللهُ، ثُمَّ تُبْعَثَ قَالَ: دَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ وَأُبْعَثَ، فَسَأُوتَى مَالاً وَوَلَدًا، فَأَقْضِيَكَ، فَنَزَلَتْ (أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا، وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًا أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْدًا)
حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جاہلیت کے زمانے میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا۔ عاص بن وائل (کافر) پر میرا کچھ قرض تھا۔ میں ایک دن اس پر تقاضا کرنے گیا۔ اس نے کہا کہ جب تک تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض نہیں دوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک اللہ تعالیٰ تیری جان نہ لے لے، پھر تو دوبارہ اٹھایا جائے، اس نے کہا کہ پھر مجھے بھی مہلت دے کہ میں مر جاؤں، پھر دوبارہ اٹھایا جاؤں اور مجھے مال اور اولاد ملے گا اس وقت میں بھی تمھارا قرض ادا کروں گا۔ اس پر آیت نازل ہوئی کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات کو نہ مانا اور کہا کہ (آخرت میں) مجھے مال اور دولت دی جائے گی، کیا اسے غیب کی خبر ہے؟ یا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کوئی اقرار لے لیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1781]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 34 كتاب البيوع: 29 باب ذكر القين والحداد»