حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا: اے ابو القاسم( صلی اللہ علیہ وسلم )! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی ”(اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمھیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے۔“(اس لیے تم روح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صفات المنافقين وأحكامهم/حدیث: 1780]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 47 باب قول الله تعالى (وما أوتيتم من العلم إلا قليلاً»
وضاحت: اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اس طرح سرایت کیے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کیے ہوئے ہوتی ہے۔ ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھر پور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ روح کے متعلق مزید تفصیلات امام ابن قیم کی ”کتاب الروح“ میں ملاحظہ فرمائیں۔ (راز)