حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٗ جب اللہ تعالیٰ مخلوق کو پیدا کر چکا تو اپنی کتاب (لوح محفوظ) میں ٗ جو اس کے پاس عرش پر موجود ہے ٗ اس نے لکھا کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1749]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 1 باب ما جاء في قول الله تعالى (وهو الذي يبدأ الخلق ثم يعيده»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا، کہ اللہ نے رحمت کے سو حصے بنائے اور اپنے پاس ان میں سے ننانوے حصے رکھے صرف ایک حصہ زمین پر اتارا ہے اور اسی کی وجہ سے تم دیکھتے ہو کہ مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، یہاں تک کہ گھوڑی بھی اپنے بچہ کو اپنے سم نہیں لگنے دیتی بلکہ سموں کو اٹھا لیتی ہے کہ کہیں اس سے بچہ کو تکلیف نہ پہنچے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1750]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 19 باب جعل الله الرحمة مائة جزء»
وضاحت: گھوڑی کا اپنے بچے پر اس درجہ رحم کرنا بھی قدرت کا ایک کرشمہ ہے۔ مگر کتنے لوگ دنیا میں ایسے ہیں کہ وہ رحم و کرم کرنا مطلق نہیں جانتے بلکہ ہر وقت ظلم پر اڑے رہتے ہیں۔ ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جلد ہی وہ اپنے مظالم کی سزا بھگتیں گے کہ قانون قدرت ہی یہی ہے۔ (راز)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے قیدیوں میں ایک عورت تھی جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ اس کو قیدیوں میں ملا اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگا لیا اور اس کو دودھ پلانے لگی۔ ہم سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں جب تک اس کو قدرت ہو گی یہ اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینک سکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اللہ اپنے بندوں پر اس سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1751]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 78 كتاب الأدب: 18 باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص جس نے (بنی اسرائیل میں سے) کوئی نیک کام کبھی نہیں کیا تھا، وصیت کی کہ جب وہ مر جائے تو اسے جلا ڈالیں اور اس کی آدھی راکھ خشکی میں اور آدھی دریا میں بکھیر دیں کیونکہ اللہ کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا تو ایسا عذاب مجھ کو دے گا جو دنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ نے سمندر کو حکم دیا اور اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی، پھر اس نے خشکی کو حکم دیا اور اس نے بھی اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے عرض کیا: اے رب!تیرے خوف سے میں نے ایسا کیا اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے، پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1752]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 97 كتاب التوحيد: 34 باب قول الله تعالى (يريدون أن يبدلوا كلام الله»
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گزشتہ امتوں میں سے ایک آدمی کو اللہ تعالیٰ نے خوب دولت دی تھی۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا ٗ میں تمہارے حق میں کیسا باپ ثابت ہوا؟ بیٹوں نے کہا کہ آپ ہمارے بہترین باپ تھے۔ اس شخص نے کہا لیکن میں نے عمر بھر کوئی نیک کام نہیں کیا۔ اس لئے جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا ٗ پھر میری ہڈیوں کو پیس ڈالنا اور (راکھ کو) کسی سخت آندھی کے دن ہوا میں اڑا دینا۔ بیٹوں نے ایسا ہی کیا لیکن اللہ پاک نے اسے جمع کیا اور پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس شخص نے عرض کیا:پروردگار تیرے ہی خوف سے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب التوبة/حدیث: 1753]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 54 باب حدثنا أبو اليمان»