اللؤلؤ والمرجان
كتاب فضائل الصحابة
کتاب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فضائل
838. باب من فضائل جعفر بن أبي طالب وأسماء بنت عميس وأهل سفينتهم رضی اللہ عنہ
838. باب: حضرت جعفر بن ابو طالب حضرت اسماء بنت عمیس اور ان کے ساتھ کشتی والوں کی خوبیاں کا بیان
حدیث نمبر: 1627
1627 صحيح حديث أَبِي مُوسى وَأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ عَنْ أَبِي مُوسى رضي الله عنه، قَالَ: بَلَغَنَا مَخْرَجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ بِالْيَمَنِ فَخَرَجْنَا مُهَاجِرِينَ إِلَيْهِ، أَنَا وَأَخَوَانِ لِي، أَنَا أَصْغَرُهُمْ، أَحَدُهُمَا أَبُو بُرْدَةَ، وَالآخَرُ أَبُو رُهْمٍ فِي ثَلاَثَةٍ وَخَمْسِينَ أَوِ اثْنَيْنِ وَخَمْسِينَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِي فَرَكِبْنَا سَفِينَةً، فَأَلْقَتْنَا سَفِينَتُنَا إِلَى النَّجَاشِيِّ، بِالْحَبَشَةِ، فَوَافَقْنَا جَعْفَرَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فَأَقَمْنَا مَعَهُ حَتَّى قَدِمْنَا جَمِيعًا فَوَافَقْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ افْتَتَحَ خَيْبَرَ وَكَانَ أُنَاسٌ مِنَ النَّاسِ يَقُولُونَ لَنَا: (يَعْنِي لأَهْلِ السَّفِينةِ) سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَة وَدَخَلَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ، وَهِيَ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَنَا، عَلَى حَفْصَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، زَائِرةً وَقَدْ كَانَتْ هَاجَرَتْ إِلَى النَّجَاشِيِّ فِيمَنْ هَاجَرَ فَدَخَلَ عُمَرُ عَلَى حَفْصَةَ، وَأَسْمَاءُ عِنْدَهَا فَقَالَ عُمَرُ، حِينَ رَأَى أَسْمَاءَ: مَنْ هذِهِ قَالَتْ: أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ قَالَ عُمَرُ: الْحَبَشِيَّةُ هذِهِ الْبَحْرِيَّةُ هذِهِ قَالَتْ أَسْمَاءُ: نَعَم قَالَ: سَبَقْنَاكُمْ بِالْهِجْرَةِ، فَنَحْنُ أَحَقُّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْكُمْ فَغَضِبَتْ، وَقَالَتْ: كَلاَّ وَاللهِ كُنْتمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُطْعِمُ جَائِعَكُمْ، وَيَعِظُ جَاهِلَكُمْ وَكُنَّا فِي دَارِ، (أَوْ) فِي أَرْضِ الْبُعَدَاءِ الْبُغَضَاءِ بِالْحَبَشَةِ وَذَلِكَ فِي اللهِ وَفِي رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَايْمُ اللهِ لاَ أَطْعَمُ طَعَامًا، وَلاَ أَشْرَبُ شَرَابًا، حَتَّى أَذْكُرَ مَا قُلْتَ لرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ كُنَّا نُؤْذَى وَنَخَافُ، وَسَأَذْكُرُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَسْأَلُهُ وَاللهِ لاَ أَكْذِبُ وَلاَ أَزِيغُ وَلاَ أَزِيدُ عَلَيْهِ فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللهِ إِنَّ عُمَرَ قَالَ كَذَا وَكَذَا قَالَ: فَمَا قُلْتِ لَهُ قَالَتْ: قلْتُ لَهُ كَذَا وَكَذَا قَالَ: لَيْسَ بِأَحَقَّ بِي مِنْكُمْ وَلَهُ وَلأَصْحَابِهِ هِجْرَةٌ وَاحِدَةٌ وَلَكُمْ أَنْتُمْ، أَهْلَ السَّفِينَةِ هِجْرَتَانِ قَالَتْ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسى وَأَصْحَابَ السَّفِينَةِ يَأْتُونِي أَرْسَالاً، يَسْأَلُونِي عَنْ هذَا الْحَدِيثِ مَا مِنَ الدُّنْيَا شَيْءٌ هُمْ بِهِ أَفْرَحُ، وَلاَ أَعْظَمُ فِي أَنْفُسِهِمْ، مِمَّا قَالَ لَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو بُرْدَةَ (رَاوِي الْحَدِيثِ) قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَلَقَدْ رَأَيْتُ أَبَا مُوسى وَإِنَّهُ لِيَسْتَعِيدُ هذَا الْحَدِيثَ مِنِّي
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے متعلق خبر ملی تو ہم یمن میں تھے، اس لئے ہم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہجرت کی نیت سے نکل پڑے۔ میں اور میرے دو بھائی‘ میں دونوں سے چھوٹا تھا۔ میرے ایک بھائی کا نام ابو بردہ رضی اللہ عنہ تھا اور دوسرے کا ابو رہم۔ انہوں نے کہا کہ پچاس سے کچھ زائد یا انہوں نے یوں بیان کیا کہ میری قوم کے تریپن (۵۳) یا باون (۵۲) لوگ بھی ساتھ تھے۔ ہم کشتی پر سوار ہوئے لیکن ہماری کشتی نے ہمیں نجاشی کے ملک حبشہ میں لا ڈالا وہاں ہماری ملاقات جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ہو گئی، جو پہلے ہی مکہ سے ہجرت کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔ ہم نے وہاں انہی کے ساتھ قیام کیا‘ پھر ہم سب مدینہ اکٹھے روانہ ہوئے یہاں ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت پہنچے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کر چکے تھے کچھ لوگ ہم سے یعنی کشتی والوں سے کہنے لگے کہ ہم نے تم سے پہلے ہجرت کی ہے اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا جو ہمارے ساتھ مدینہ آئی تھیں۔ ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لئے خدمت میں حاضر ہوئیں‘ وہ (اسماء) بھی نجاشی کے ملک میں ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کر کے چلی گئی تھیں۔ عمر رضی اللہ عنہ بھی حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے۔ اس وقت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا وہیں تھیں جب عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ یہ کون ہیں؟ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ اسماء بنت عمیس عمر رضی اللہ عنہا نے اس پر کہا اچھا وہی جو حبشہ سے بحری سفر کرکے آئی ہیں، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جی ہاں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم تم لوگوں سے ہجرت میں آگے ہیں، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تمہارے مقابلہ میں زیادہ قریب ہیں اسماء رضی اللہ عنہا اس پر بہت غصہ ہو گئیں اور کہا ہرگز نہیں، خدا کی قسم! تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہو‘ تم میں جو بھوکے ہوتے تھے اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھلاتے تھے اور جو ناواقف ہوتے اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نصیحت و موعظت کیا کرتے تھے لیکن ہم بہت دور حبشہ میں غیروں اور دشمنوں کے ملک میں رہتے تھے‘ یہ سب کچھ ہم نے اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں ہی تو کیا ہے اور خدا کی قسم! میں اس وقت تک نہ کھانا کھاؤں گی نہ پانی پیوں گی جب تک تمہاری بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کہہ لوں ہمیں اذیت دی جاتی تھی‘ دھمکایا ڈرایا جاتا تھا‘ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کروں گی اور آپ سے اس کے متعلق پوچھوں گی، خدا کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی‘ نہ کج روی اختیار کروں گی اور نہ کسی (خلاف واقعہ بات کا) اضافہ کروں گی۔چنانچہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو انہوں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! عمر اس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے انہیں کیا جواب دیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے انہیں یہ یہ جواب دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ وہ تم سے زیادہ مجھ سے قریب نہیں ہیں۔ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو صرف ایک ہجرت حاصل ہوئی اور تم کشتی والوں نے دو ہجرتوں کا شرف حاصل کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس واقعہ کے بعد ابو موسیٰ اور تمام کشتی والے میرے پاس گروہ در گروہ آنے لگے اور مجھ سے اس حدیث کے متعلق پوچھنے لگے۔ ان کے لئے دنیا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے متعلق اس ارشاد سے زیادہ خوش کن اور باعث فخر اور کوئی چیز نہیں تھی۔ ابو بردہ (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ مجھ سے اس حدیث کو بار بار سنتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1627]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 38 باب غزوة خيبر»

وضاحت: راوي حدیث:… حضرت اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہا، آپ نے اپنے خاوند حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی وہاں آپ کے بطن سے محمد، عبداللہ اور عون پیدا ہوئے۔ پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت جعفر شہید ہوئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کر لیا تھا۔ اور آپ کے بطن سے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کر لیا تھا۔ یہاں آپ کے بطن سے یحییٰ پیدا ہوئے۔ جلیل القدر صحابہ آپ کے شاگرد ہیں۔