سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کیے ہوئے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ہم ہمیشہ زید بن محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں آیت نازل ہوئی کہ ”انہیں ان کے باپوں کی طرف منسوب کرو کہ یہی اللہ کے نزدیک سچی اور ٹھیک بات ہے۔“[اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1570]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 33 سورة الأحزاب: 2 باب ادعوهم لآبائهم»
وضاحت: اسلامی قانون میں لے پاک لڑکے لڑکی کا کوئی وزن نہیں ہے۔ اس کو اولاد حقیقی جیسے حقوق نہیں ملیں گے۔ (راز)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھیجی اور اس کا امیر اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کوبنایا ان کے امیر بنائے جانے پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر آج تم اس کے امیر بنائے جانے پر اعتراض کر رہے ہو تو اس سے پہلے اس کے باپ کے امیر بنائے جانے پر بھی تم نے اعتراض کیا تھا اور خدا کی قسم وہ (زید رضی اللہ عنہ) امارت کے مستحق تھے اور مجھے سب سے زیادہ عزیزتھے اور یہ(اسامہ رضی اللہ عنہ) اب ان کے بعد مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب فضائل الصحابة/حدیث: 1571]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 62 كتاب فضائل أصحاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: 17 باب مناقب زيد ابن حارثة»
وضاحت: یہ لشکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں تیار کیا تھا اور حکم فرمایا تھا کہ فوراً ہی روانہ ہو جائے۔ مگر بعد میں جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو لشکر مدینہ کے قریب سے ہی واپس لوٹ آیا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں اس کو تیار کر کے روانہ فرمایا۔ (راز)