1529 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: قَالَ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اخْتَتَنَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِينَ سَنَةً، بِالْقَدُّومِ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی سال کی عمر میں بسولے سے ختنہ کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1529]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 8 باب قول الله تعالى (واتخذ الله إبراهيم خليلاً»
وضاحت: اسی عمر میں حضرت ابراہیم کو ختنے کا حکم آیا۔ استرہ پاس نہ تھا۔ اس لیے حکم الٰہی کی تعمیل میں خود ہی بسولے سے ختنہ کر لیا۔ بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی اعتراض کیا ہے جو ان کی حماقت کی دلیل ہے۔ جب ایک انسان خودکشی کر سکتا ہے، خود اپنے ہاتھ سے اپنی گردن کاٹ سکتا ہے تو حضرت ابراہیم کا خود بسولے سے ختنہ کر لینا کون سا موجب تعجب ہے۔ اور اسّی (۸۰) سال کی عمر میں ختنے پر اعتراض کرنا بھی حماقت ہے۔ جب حکم الٰہی ہوا اس کی تعمیل کی گئی۔ (راز)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تم ایمان نہیں لائے، انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں، لیکن یہ صرف اس لئے تاکہ میرے دل کو اور زیادہ اطمینان ہو جائے اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے کہ وہ زبردست رکن (یعنی خداوند کریم کی پناہ لیتے تھے) اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک حضرت یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کی بات ضرور مان لیتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1530]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 11 باب قوله عز وجل (ونبئهم عن ضيف إبراهيم»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تین مرتبہ جھوٹ بولا تھا، دو ان میں سے خالص اللہ عزوجل کی رضا کے لیے تھے۔ ایک تو ان کا فرمانا (بطور توریہ کے) کہ ”میں بیمار ہوں“ اور دوسرا ان کا یہ فرمانا کہ ”بلکہ یہ کام تو ان کے بڑے (بت) نے کیا ہے“ اور بیان کیا کہ ایک مرتبہ ابراہیم اور سارہ علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کی حدود سلطنت سے گزرے تھے۔ بادشاہ کو خبر ملی کہ یہاں ایک شخص آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی ایک خوبصورت ترین عورت ہے۔ بادشاہ نے ابراہیم علیہ السلام کے پاس اپنا آدمی بھیج کر انہیں بلوایا اور حضرت سارہ علیہا السلام کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ میری بہن ہیں۔ پھر آپ سارہ علیہا السلام کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے سارہ! یہاں میرے اور تمہارے سوا اور کوئی بھی مومن نہیں ہے اور اس بادشاہ نے مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ تم میری (دینی اعتبار سے) بہن ہو۔ اس لئے اب تم کوئی ایسی بات نہ کہنا جس سے میں جھوٹا بنوں۔ پھر اس ظالم نے حضرت سارہ کو بلوایا اور جب وہ اس کے پاس گئیں تو اس نے ان کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا لیکن فوراً ہی پکڑ لیا گیا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ میرے لئے اللہ سے دعا کرو (کہ اس مصیبت سے نجات دے) میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا‘چنانچہ انہوں نے اللہ سے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ لیکن پھر دوسری مرتبہ اس نے ہاتھ بڑھایا اور اس مرتبہ بھی اس طرح پکڑ لیا گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت اور پھر کہنے لگا کہ اللہ سے میرے لئے دعا کرو، میں اب تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ چھوڑ دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے اپنے کسی خدمت گار کو بلا کر کہا کہ تم لوگ میرے پاس کسی انسان کو نہیں لائے ہو، یہ تو کوئی سرکش جن ہے (جاتے ہوئے) سارہ علیہا السلام کو اس نے ہاجرہ علیہا السلام خدمت میں دیں۔ جب حضرت سارہ آئیں تو ابراہیم علیہ السلام کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے ان کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کافر یا (یہ کہا کہ) فاجر کے فریب کو اسی کے منہ پر دے مارا اور ہاجرہ کو خدمت کے لیے دیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے بنی ماء السماء (اے آسمانی پانی کی اولاد! یعنی اہل عرب) تمہاری والدہ یہی (حضرت ہاجرہ علیہا السلام) ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الفضائل/حدیث: 1531]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 8 باب قول الله تعالى (واتخذ الله إبراهيم خليلاً»
وضاحت: روایت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تین بار جھوٹ بولنے کا ذکر ہے جو حقیقت میں جھوٹ نہ تھے۔ کیونکہ جھوٹ انبیاء کی شان سے بہت بعید ہے۔ اس کو توریہ کہا جاتا ہے (یعنی ذو معنی الفاظ)۔ (راز)