اللؤلؤ والمرجان
كتاب الأشربة
کتاب: پینے کی اشیاء کا بیان
687. باب جواز استتباعه غيره إلى دار من يثق برضاه بذلك ويتحققه تحققًا تامًا، واستحباب الاجتماع على الطعام
687. باب: اگر مہمان کو یقین ہو کہ میزبان دوسرے کسی شخص کو ساتھ لے جانے سے ناراض نہیں ہو گا تو ساتھ لے جا سکتا ہے اور اکٹھے کھانا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1322
1322 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: لَمَّا حُفِرَ الْخَنْدَقُ، رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا، فَانْكَفَأْتُ إِلَى امْرَأَتِي، فَقُلْتُ: هَلْ عِنْدَكِ شَيْءٌ فَإِنِّي رَأَيْتُ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَمَصًا شَدِيدًا فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جِرَابًا، فِيهِ صَاعٌ مِنْ شَعِيرٍ، وَلَنَا بُهَيْمَةٌ دَاجِنٌ، فَذَبَحْتُهَا، وَطَحَنَتِ الشَّعِيرَ فَفَرَغَتْ إِلَى فَرَاغِي وَقَطّعْتُهَا فِي بُرْمَتِهَا، ثُمَّ وَلَّيْتُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: لاَ تَفْضَحْنِي بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِمَنْ مَعَهُ فَجِئْتُهُ فَسَارَرْتُهُ؛ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ ذَبَحْنَا بُهَيْمَةً لَنَا، وَطَحَنَّا صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، كَانَ عِنْدَنَا، فَتَعَالَ أَنْتَ وَنَفَرٌ مَعَكَ فَصَاحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَهْلَ الْخَنْدَقِ إِنَّ جَابِرًا قَدْ صَنَعَ سُورًا، فَحَيَّ هَلاً بِكُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لاَ تُنْزِلُنَّ بُرْمَتَكُمْ، وَلاَ تَخْبِزُنَّ عَجِينَكُمْ حَتَّى أَجِيءَ فَجِئْتُ، وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقْدُمُ النَّاسَ، حَتَّى جِئْتُ امْرأَتِي فَقَالَتْ: بِكَ وَبِكَ فَقُلْتُ: قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي قُلْتِ فَأَخْرَجَتْ لَهُ عَجِينًا، فَبَصَقَ فِيهِ وَبَارَكَ ثُمَّ عَمَدَ إِلَى بُرْمَتِنَا فَبَصَقَ وَبَارَكَ ثُمَّ قَالَ: ادْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعِي، وَاقْدَحِي مِنْ بُرْمَتِكُمْ وَلاَ تُنْزِلُوهَا وَهُمْ أَلْفٌ فَأَقْسِمُ بِاللهِ لقَدْ أَكَلُوا حَتَّى تَرَكُوهُ وَانْحَرفُوا، وَإِنَّ بُرْمَتَنَا لَتَعِطُّ كَمَا هِيَ، وَإِنَّ عَجِينَنَا لَيخْبَزُ كَمَا هُوَ
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا: کیا تمہارے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی بھوکے ہیں میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جو تھے گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو چکی میں پیسے۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جو پیس چکی تھیں میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا، چنانچہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے ایک چھوٹا سا بکری کا بچہ ذبح کر لیا ہے اور ایک صاع جو پیس لئے ہیں جو ہمارے پاس تھے، اس لئے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بلند آواز سے فرمایا‘ اے اہل خندق! جابر رضی اللہ عنہ نے تمہارے لئے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو‘ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تک میں آنہ جاؤں ہانڈی چولھے پر سے نہ اتارنا اور نہ آٹے کی روٹی پکانی شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں میںنے کہا کہ تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کر دیا تھا آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنے لعاب دہن مبارک کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب مبارک کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اب روٹی پکانے والی کو بلاؤ۔ وہ میرے سامنے روٹی پکائے اور گوشت ہانڈی سے نکالے لیکن چولھے سے ہانڈی نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے (شکم سیر ہو کر) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہوگئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی‘ جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1322]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 29 باب غزوة الخندق وهي الأحزاب»

حدیث نمبر: 1323
1323 صحيح حديث أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ أَبو طَلْحَة لأُمِّ سُلَيْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا، أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ، فَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ قَالَتْ: نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَهَا، فَلَفَّتِ الْخُبزَ بِبَعْضِهِ، ثُمَّ دَستْهُ تَحْتَ يَدِي وَلاَثَتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: فَذَهَبْتُ بِهِ، فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، وَمَعَهُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ لِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: آرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ فَقُلْتُ: نَعَمْ قَالَ: بِطَعَامٍ فَقُلْتُ: نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، لَيْسَ عَنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ، فَقَالَتْ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو طَلْحَةَ مَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمِّي يَا أُمَّ سُلَيْمٍ مَا عِنْدَكِ فَأَتَتْ بِذلِكَ الْخبْزِ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ، وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا، وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ أَوْ ثَمَانُونَ رَجُلاً
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے (میری والدہ) ام سلیم رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو آپ کی آواز میں بہت ضعف معلوم ہواہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ بہت بھوکے ہیں کیا تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ چنانچہ انہوں نے جو کی چند روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی نکالی اور اس میں روٹیوں کو لپیٹ کر میرے ہاتھ میں چھپا دیا اور اس اوڑھنی کا دوسرا حصہ میرے بدن پر باندھ دیا ٗ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مجھے بھیجا۔ میں جو گیا تو آپ مسجد میں تشریف رکھتے تھے ٗ آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں آپ کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ نے فرمایا کیا ابو طلحہ نے تمہیں بھیجا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ٗ آپ نے دریافت فرمایا ٗ کچھ کھانا دے کر؟ میں نے عرض کیا جی ہاں ٗ جو صحابہ آپ کے ساتھ اس وقت موجود تھے ٗ ان سب سے آپ نے فرمایا کہ چلو اٹھو۔ آنحضرت تشریف لانے لگے اور میں آپ کے آگے آگے لپک رہا تھا حتی کہ میں نے ابو طلحہ کے گھر پہنچ کر انہیں خبر دی۔ ابو طلحہ بولے: ام سلیم!حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت سے لوگوں کو ساتھ لائے ہیں ہمارے پاس اتنا کھانا کہاں ہے کہ سب کو کھلایا جا سکے؟ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کہا ٗ اللہ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں (ہم فکر کیوں کریں؟) خیر ابو طلحہ آگے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ بھی چل رہے تھے (گھر پہنچ کر) آپ نے فرمایا: ام سلیم! تمہارے پاس جو کچھ ہو یہاں لاؤ۔ ام سلیم نے وہی روٹی لا کر آپ کے سامنے رکھ دی، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے روٹیوں کا چورا کر دیا گیا۔ ام سلیم رضی اللہ عنہ نے کپی نچوڑ کر اس پر کچھ گھی ڈال دیا اور اس طرح سالن ہو گیا۔ آپ نے اس کے بعد اس پر دعا کی، جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے چاہا۔ پھر فرمایا دس آدمیوں کو بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ ان سب نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور جب یہ لوگ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو بلا لو۔ چنانچہ دس آدمیوں کو بلایا گیا ٗ انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب یہ لوگ باہر گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دس ہی آدمیوں کو اندر بلا لو۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور انہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ جب وہ باہر گئے تو آپ نے فرمایا کہ پھر دس آدمیوں کو دعوت دے دو۔ اس طرح سب لوگوں نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا، ان لوگوں کی تعداد ستر یا اسی تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1323]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 61 كتاب المناقب: 25 باب علامات النبوة في الإسلام»