اللؤلؤ والمرجان
كتاب اللقطة
کتاب: گری پڑی چیز ملنے کے مسائل
584. باب اللقطة
584. باب: گری پڑی چیز ملنے کے مسائل
حدیث نمبر: 1123
1123 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رضي الله عنه، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلاَّ فَشَأْنَكَ بِهَا قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ قَالَ: هِيَ لَكَ أَوْ لأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ قَالَ: فَضَالَّةُ الإِبِلِ قَالَ: مَالَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا، تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا
سیّدنازید بن خالد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور آپ سے لقطہ (راستے میں کسی کی گم ہوئی چیز جو پالی گئی ہو) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تھیلی اور اس کے بندھن کی خوب جانچ پڑتال کر لو۔ پھر ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو۔ اس عرصے میں اگر اس کا مالک آجائے (تو اسے دے دو) ورنہ پھر وہ چیز تمھاری ہے۔ سائل نے پوچھا اور گمشدہ بکری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمھاری ہے یا تمھارے بھائی کی ہے یا پھر بھیڑیے کی ہے۔ سائل نے پوچھا اور گمشدہ اونٹ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں اس سے کیا مطلب؟ اس کے ساتھ اسے سیراب رکھنے والی چیز ہے اور اس کا گھر ہے۔ پانی پر بھی وہ جا سکتا ہے اور درخت (کے پتے) بھی کھا سکتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا جائے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللقطة/حدیث: 1123]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 42 كتاب المساقاة: 12 باب شرب الناس والدواب من الأنهار»

حدیث نمبر: 1124
1124 صحيح حديث أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رضي الله عنه، قَالَ: وَجَدْتُ صُرَّةً عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ، فَأَتَيْتُ بِهَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلاً فَعَرَّفْتُهَا حَوْلاً، ثمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: عَرِّفهَا حَوْلاً فَعَرَّفْتُهَا حَوْلاً، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلاً فَعَرَّفْتُهَا حَوْلاً، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الرَّابِعَةَ فَقَالَ: اعْرِفْ عِدَّتَهَا وَوِكَاءَهَا وَوِعَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلاَّ اسْتَمْتِعْ بِهَا
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مجھ کو ایک تھیلی مل گئی تھی، جس میں سو دینار تھے۔ میں اسے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتا رہ، میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا اور پھر حاضر ہوا۔ (کہ مالک ابھی تک نہیں ملا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اور اعلان کر، میں نے ایک سال تک اس کا پھر اعلان کیا اور حاضر خدمت ہوا۔ اس مرتبہ بھی آپ نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا پھراعلان کر، میں نے پھر ایک سال تک اعلان کیا اور جب چوتھی مرتبہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رقم کے عدد، تھیلی کا بندھن اور اس کی ساخت کو خیال میں رکھ، اگر اس کا مالک مل جائے تو اسے دے دے ورنہ اسے اپنی ضروریات میں خرچ کر۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب اللقطة/حدیث: 1124]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 45 كتاب اللقطة: 10 باب هل يأخذ اللقطة ولا يدعها تضيع حتى لا يأخذها من لا يستحق»