سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہمانے اپنی بیوی (آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ انہیں کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہم بستری سے پہلے ہونی چاہئے یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 936]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 1 باب قول الله تعالى (يأيها النبي إذا طلقتم النساء فطلقوهن لعدتهن وأحصوا العدة»
یونس بن جبیر رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ میں نے سیّدنا ابن عمر سے (حالت حیض میں طلاق کے بارے) پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ ابن عمر نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اس وقت وہ حالت حیض میں تھیں پھر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن عمر اپنی بیوی سے رجوع کر لیں پھر جب طلاق کا صحیح وقت آئے تو طلاق دیں (یونس نے بیان کیا کہ ابن عمر سے) میں نے پوچھا کہ کیا اس طلاق کا بھی شمار ہوا تھا؟ انہوں نے بتلایا کہ اگر کوئی طلاق دینے والا شرع کے احکام بجا لانے سے عاجز ہو یا احمق بے وقوف (تو کیا طلاق نہیں پڑے گی)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الطلاق/حدیث: 937]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 68 كتاب الطلاق: 45 باب مراجعة الحائض»