سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال تھی پھر ہم مدینہ (ہجرت کر کے) آئے اور بنی حارث بن خزرج کے یہاں قیام کیا یہاں آ کر مجھے بخار چڑھا اور اس وجہ سے میرے بال گرنے لگے پھر مونڈھوں تک خوب بال ہو گئے پھر ایک دن میری والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا آئیں اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی انہوں نے مجھے پکارا تو میں حاضر ہو گئی مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ان کا کیا ارادہ ہے آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازے کے پاس کھڑا کر دیا اور میرا سانس پھولا جا رہا تھا تھوڑی دیر میں جب مجھے کچھ سکون ہوا تو انہوں نے تھوڑا سا پانی لے کر میرے منہ اور سر پر پھیرا پھر گھر کے اندر مجھے لے گئیں وہاں انصار کی چند عورتیں موجود تھیں جنہوں نے مجھے دیکھ کر دعا دی کہ خیرو برکت اور اچھا نصیب لے کر آئی ہو میری ماں نے مجھے انہیں کے حوالہ کر دیا اور انہوں نے میری آرائش کی اس کے بعد دن چڑھے اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مجھے سلام کیا میری عمر اس وقت نو سال تھی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب النكاح/حدیث: 897]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 44 باب تزويج النبي صلی اللہ علیہ وسلم عائشة»
وضاحت: حجاز چونکہ گرم ملک ہے۔ اس لیے وہاں قدرتی طور پر لڑکے اور کڑکیاں بہت کم عمر میں بالغ ہو جاتی ہیں۔اس لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی رخصتی کے وقت صرف ۹ سال کی عمر تعجب خیز نہیں ہے۔(راز)