حضرت کریب رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا ابن عباس مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہ نے مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعات کے بارے میں دریافت کرنا انہیں یہ بھی بتا دینا کہ ہمیں خبر ہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعات پڑھتی ہیں حالانکہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعات سے منع کیا ہے اور ابن عباس نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان رکعات کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیا کہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی خدمت میںحاضر ہوا اور پیغام پہنچایا اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے اس کے متعلق دریافت کر چنانچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی گفتگو نقل کر دی انہوں نے مجھے سیدہ ام سلمہ کی خدمت میں بھیجا انہی پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ سیدہ عائشہ کے یہاں بھیجا تھا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہانے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ خود یہ دو رکعات پڑھ رہے ہیں (عصر) کے بعد آپ میرے گھر تشریف لائے (اور دو رکعت ادا کرنے لگے) میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اس لئے میں نے ایک باندی کو آپ کی خدمت میں بھیجا میں نے اس سے کہہ دیا کہ وہ آپ کے ایک طرف ہو کر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہے کہ یا رسول اللہ آپ تو ان دو رکعات سے منع کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ خود انہیں پڑھتے ہیں اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی پھر جب آپ (نماز سے) فارغ ہوئے تو (آپ نے ام سلمہ سے) فرمایا کہ اے ابو امیہ کی بیٹی تم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کے متعلق پوچھا بات یہ ہے کہ میرے پاس عبدالقیس کے کچھ لوگ آ گئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے کی وجہ سے ظہر کے بعد دو رکعات نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 477]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 22 كتاب السهو: 8 باب إذا كُلِّم وهو يصلي فأشار بيده واستمع»
وضاحت: نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر اشارے سے کچھ جواب دے دے تو نماز فاسد نہ ہوگی جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی اشارہ اس حدیث سے ثابت ہے۔ (راز)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ دو رکعات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ترک نہیں فرمایا۔ پوشیدہ ہو یا عام لوگوں کے سامنے، صبح کی نماز سے پہلے دو رکعات اور عصر کی نماز کے بعد دو رکعات۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 478]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 33 باب ما يصلي بعد العصر من الفوائت ونحوها»
وضاحت: عصر کے بعد دو رکعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھیں۔ امت کے لیے آپ نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا ہے۔ (راز)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے لیکن وفد عبدالقیس کی وجہ سے آپ کی ظہر کی بعد والی دو سنتیں رہ گئی تھیں تو آپ نے انہیں عصر کے بعد پڑھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد کا وقت درحقیقت نہی کا وقت ہے اور اس میں کوئی نماز پڑھنا منع ہے لیکن اگر کوئی سببی نماز ہو تو وہ پڑھی جا سکتی ہے جیسے کوئی قضا نماز، نماز جنازہ، تحیۃ المسجد وغیرہ۔ باقی ان دو رکعات پر ہمیشگی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ جب ایک کام ایک دفعہ کر لیتے تو پھر اس پر ہمیشگی فرماتے۔