اللؤلؤ والمرجان
كتاب صلاة المسافرين وقصرها
کتاب: مسافروں کی نماز اور اس کے قصر کا بیان
233. باب بيان أن القرآن على سبعة أحرف وبيان معناه
233. باب: قرآن کا سات لہجوں میں اترنا اور اس کا مفہوم
حدیث نمبر: 468
468 صحيح حديث عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، قَالَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ يَقْرَأُ سُورَة الْفُرْقَانِ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَؤهَا، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِيهَا، وَكِدْتُ أَنْ أَعْجَلَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَمْهَلْتُهُ حَتَّى انْصَرَفَ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ فَجِئْتُ بِهِ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ إِنِّي سَمِعْتُ هذَا يَقْرَأُ عَلَى غَيْرِ مَا أَقْرَأْتَنِيهَا؛ فَقَالَ لِي: أَرْسِلْهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ: اقْرَأْ فَقَرَأَ، قَالَ: هكَذَا أُنْزِلَتْ ثُمَّ قَالَ لِي: اقْرَأْ فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: هكَذَا أُنْزِلَتْ، إِنَّ الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفِ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ
سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام کو سورہ فرقان ایک دفعہ اس قرات سے پڑھتے سنی جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا حالانکہ یہ قرات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی قریب تھا کہ میں انہیں پکڑ لیتا لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ (نماز سے) فارغ ہو لیں اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو پکڑا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرات کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرات سناؤ انہوں نے اپنی وہی قرات سنائی آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی اس کے بعد مجھ سے آپ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھومیں نے بھی پڑھ کر سنایا آپ نے اس پر بھی فرمایا اسی طرح نازل ہوئی تھی قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 468]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 44 كتاب الخصومات: 4 باب الخصوم بعضهم في بعض»

وضاحت: سات قراء توں سے مراد حرکات کا اختلاف ہے کہ: (۱)معنی اور صورت میں تبدیلی نہ ہو۔ (۲) صرف معنی میں تبدیلی ہو۔ یا حروف کا اختلاف۔ (۳)معنی میں تبدیلی ہو صورت میں نہیں۔ (۴)یا صورت میں تبدیلی ہو معنی میں نہیں۔ (۵)یا دونوں میں تبدیلی ہو۔ یا (۶)تقدیم و تاخیر میں اختلاف ہو۔ (۷) یا زیادتی اور نقصان میں اختلاف واقع ہو۔ اس بارے میں مکمل بحث فتح الباری (کتاب فضائل القرآن: ۵۔ باب انزل القرآن علی سبعہ احرف) میں دیکھیں کیونکہ شارح نے اس بارے میں بڑی وضاحت اور تفصیل بیان کی ہے جو شائد مجموعی طور پر کسی اور کتاب میں موجود نہیں ہے۔ (مرتبؒ) راوي حدیث: امیرالمومنین خلیفہ راشد سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو حفص تھی۔ عام الفیل سے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ بڑے دلیر اور حق و عدل کے پیکر مجسم تھے۔ آپ کے قبول اسلام سے مسلمان اعلانیہ بیت اللہ میں نماز پڑھنے لگے۔ آپ مرادِ رسول تھے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں اسلامی سلطنت کو جو عروج حاصل ہوا، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ آپ نے ایران کے آتش پرستوں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ باطل کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھے۔ ۲۳ ہجری کو صبح کی نماز میں ابو لولو المجوسی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ اس ملعون کی یاد میں ایرانیوں نے باقاعدہ مزار بنایا۔ جس پر وہ جشن مناتے ہیں۔

حدیث نمبر: 469
469 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَقْرَأَنِي جِبْرِيلُ عَلَى حَرْفٍ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِيدُهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے قرآن مجید مجھے (عرب کے) ایک ہی محاورے کے مطابق پڑھ کر سکھایا تھا لیکن میں اس میں برابر اضافہ کی خواہش کا اظہار کرتا رہا تاآنکہ عرب کے سات محاوروں پر اس کا نزول ہوا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 59 كتاب بدء الخلق: 6 باب ذكر الملائكة»