اللؤلؤ والمرجان
كتاب صلاة المسافرين وقصرها
کتاب: مسافروں کی نماز اور اس کے قصر کا بیان
230. باب فضل استماع القرآن وطلب القراءة من حافظه للاستماع والبكاء عند القراءة والتدبر
230. باب: قرآن سننے، حافظ سے اس کی فرمائش کرنے اور بوقت قرات رونے اور غور کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 463
463 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اقْرَأْ عَلَيَّ قَالَ: قُلْتُ أَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ: إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي قَالَ: فَقَرَأْتُ النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا بَلَغَتُ (فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هؤلاَءِ شَهِيدًا) قَالَ لِي: كُفَّ أَوْ أَمْسِكْ فَرَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے قرآن مجید کی تلاوت کرو میں نے عرض کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں کیا تلاوت کروں آپ پر تو قرآن مجید نازل ہی ہوتا ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی اور سے سنوں راوی نے بیان کیا کہ میں نے سورہ نساء پڑھی اور جب میں آیت فکیف اذ ا جئنا من کل امۃ بشھید و جئنا بک علی ھؤلاء شھید پر پہنچا تو نبی کریم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کُفٍّ فرمایا یا اَمْسِکْ راوی کو شک ہے) میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے (کُفٍّ اوراَمْسِکْ) ہر دو کے ایک معنی ہیں یعنی رک جاؤ آیت میں محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کا ذکر ہے جب آپ اپنی امت پر گواہی کے لیے پیش ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 463]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 35 باب البكاء عند قراءة القرآن»

وضاحت: آیت مبارکہ میں میدان محشر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت کا ذکر ہے جب آپ اپنی امت پر گواہی کے لیے پیش ہوں گے۔ آیت کا ترجمہ اس طرح ہے کہ پس کیا حال ہوگا جس وقت کہ ہر امت میں سے ایک گواہ ہم لائیں گے اور تجھے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں پر گواہ بنا کر لائیں گے۔ (راز)

حدیث نمبر: 464
464 صحيح حديث ابْنِ مَسْعُودٍ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ: كُنَّا بِحِمْصَ، فَقَرَأَ ابْنُ مَسْعُودٍ سُورَةَ يُوسُفَ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَا هكَذَا أُنْزِلَتْ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَحْسَنْتَ وَوَجَدَ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ، فَقَالَ: أَتَجْمَعُ أَنْ تُكَذِّبَ بِكِتَابِ اللهِ وَتَشْرَبَ الْخَمْرَ فَضَرَبَهُ الْحَدَّ
علقمہ رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ ہم حمص میں تھے سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورہ یوسف پڑھی تو ایک شخص بولا کہ اس طرح نہیں نازل ہوئی تھیں سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی تھی اور آپ نے میری قرات کی تحسین فرمائی انہوں نے محسوس کیا کہ اس معترض کے منہ سے شراب کی بدبو آ رہی ہے تو فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے متعلق جھوٹا بیان اور شراب پینے جیسے گناہ ایک ساتھ کرتا ہے پھر انہوں نے اس پر حد جاری کروائی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 464]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 66 كتاب فضائل القرآن: 8 باب القرّاء من أصحاب النبي صلي الله عليه وسلم»