ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب موذن صبح کی اذان صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد دے چکا ہوتا تو آپ اذان اور تکبیر کے بیچ نماز قائم ہونے سے پہلے دو ہلکی سی رکعات پڑھتے (یہ فجر کی سنتیں ہوتی تھیں آپ سفر اور حضر ہر جگہ لازماً ان کو ادا فرماتے تھے)[اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 419]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 12 باب الأذان بعد الفجر»
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعات پڑھتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 420]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 12 باب الأذان بعد الفجر»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی (فرض) نماز سے پہلے کی دو (سنت) رکعات کو بہت مختصر رکھتے تھے آپ نے ان میں سورہ فاتحہ بھی پڑھی یا نہیں میں یہ بھی نہیں کہہ سکتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 421]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 19 كتاب التهجد: 28 باب ما يقرأ في ركعتي الفجر»
وضاحت: یہ مبالغہ ہے۔ یعنی بہت ہلکی پھلکی پڑھا کرتے تھے۔ ابن ماجہ میں ہے کہ آپ ان میں سورہ کافرون اور سورہ اخلاص پڑھا کرتے تھے۔(راز)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی نفل نماز کی فجر کی دو رکعات سے زیادہ پابندی نہیں کرتے تھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب صلاة المسافرين وقصرها/حدیث: 422]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 19 كتاب التهجد: 27 باب تعاهد ركعتي الفجر ومن سماها تطوعا»
وضاحت: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سنتوں پر مداومت فرمائی ہے۔ اس لیے سفرو حضر کہیں بھی ان ترک کرنا اچھا نہیں ہے۔(راز)