سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہمانے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر کہا تھا کہ جو شخص اس درخت یعنی لہسن کو کھائے ہوئے ہو، اسے ہماری مسجد میں نہ آنا چاہیے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 331]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 160 باب ما جاء في الثوم النِّيِّ والبصل والكراث»
وضاحت: کچا لہسن یا کچا پیاز کھانا مراد ہے کہ اس کے کھانے سے منہ میں بو پیدا ہو جاتی ہے۔ سگریٹ نوشوں کے لیے بھی لازم ہے کہ منہ صاف کر کے بدبودور کر کے مسواک سے منہ کو رگڑ رگڑ کر مسجد میں آئیں۔ ان بدبودار چیزوں کا ایک ہی حکم ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ لہسن اور پیاز کو پکا کر قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ (راز)
عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لہسن کے بارے میں کیا سنا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس درخت کو کھائے وہ ہمارے قریب نہ آئے یا فرمایا ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 332]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 160 باب ما جاء في الثوم النِّيِّ والبصل والكراث»
سیّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لہسن یا پیاز کھائے ہو، تو وہ ہم سے دور رہے یا (یہ کہا کہ اسے) ہماری مسجد سے دور رہنا چاہیے یا اسے اپنے گھر ہی میں بیٹھنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں کئی قسم کی ہری ترکاریاں تھیں (پیاز یا گندنا بھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بو محسوس کی اور اس کے متعلق دریافت کیا اس سالن میں جتنی ترکاریاں ڈالی گئی تھیں وہ آپ کو بتا دی گئیں وہاں ایک صحابی موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی طرف یہ سالن بڑھا دو آپ نے اسے کھانا پسند نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تم لوگ کھا لو میری جن سے سرگوشی رہتی ہے تمہاری نہیں رہتی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 333]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 10 كتاب الأذان: 160 باب ما جاء في الثوم النِّيِّ والبصل والكراث»