اللؤلؤ والمرجان
كتاب المساجد ومواضع الصلاة
کتاب: مسجدوں اور نمازوں کی جگہوں کا بیان
160. باب تحريم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من إِباحته
160. باب: نماز میں باتیں کرنا حرام ہے اور اجازت منسوخ ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 311
311 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ رضي الله عنه، قَالَ: كُنَّا نُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلاَةِ فَيَرُدُّ عَلَيْنَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ عِنْدِ النَّجَاشِيِّ سَلَّمْنَا عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْنَا، وَقَالَ: إِنَّ فِي الصَّلاَةِ شُغْلاً
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (پہلے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ اس کا جواب دیتے تھے جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے (پہلے کی طرح نماز ہی میں) سلام کیا لیکن اس وقت آپ نے جواب نہیں دیا بلکہ (نماز سے فارغ ہو کر) فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 311]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 21 كتاب العمل في الصلاة: 2 باب ما ينهى من الكلام في الصلاة»

حدیث نمبر: 312
312 صحيح حديث زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنَّا نَتَكَلَّمُ فِي الصَّلاَةِ، يُكَلِّمُ أَحَدُنَا أَخَاهُ فِي حَاجَتِهِ، حَتَّى نَزَلَتْ هذِهِ الآيَةُ (حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلاَةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا للهِ قَانِتِينَ) فَأُمِرْنَا بِالسُّكُوتِ
سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پہلے ہم نماز پڑھتے ہوئے بات بھی کر لیا کرتے تھے کوئی بھی شخص اپنے دوسرے بھائی سے اپنی کسی ضرورت کے لئے بات کر لیتا تھا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی سب ہی نمازوں کی پابندی رکھو اور خاص طور پر بیچ والی نماز کی اور اللہ کے سامنے فرماں برداروں کی طرح کھڑے ہوا کرو (البقرہ۲۳۸) اس آیت کے ذریعہ ہمیں نماز میں چپ رہنے کا حکم دیا گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 312]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 65 كتاب التفسير: 2 سورة البقرة: 43 باب وقوموا لله قانتين أي مطيعين»

وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عمر یا ابو عامر تھی۔ احد کے موقعہ پر چھوٹے تھے۔ اس لیے خندق میں پہلی مرتبہ میدان میں آئے۔ سترہ غزوات میں حصہ لیا۔ آنکھیں دکھتی تھیں جس کی وجہ سے نظر نہیں آتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے آنکھیں درست کر دی تھیں۔ ۶۶یا ۶۸ ہجری کو کوفہ میں وفات پائی۔

حدیث نمبر: 313
313 صحيح حديث جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ لَهُ، فَانْطَلَقْتُ، ثُمَّ رَجَعْتُ وَقَدْ قَضَيْتُهَا، فَأَتَيْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ، فَوَقَعَ فِي قَلْبِي مَا اللهُ أَعْلَمُ بِهِ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي لَعَلَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَيَّ أَنِّي أَبْطَأْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي أَشَدُّ مِنَ الْمَرَّةِ الأُولَى؛ ثُمَّ سَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِنَّمَا مَنَعَنِي أَنْ أَرُدَّ عَلَيْكَ أَنِّي كُنْتُ أُصَلِّي وَكَانَ عَلَى رَاحِلَتِهِ مُتَوَجِّهًا إِلَى غَيْرِ الْقِبْلَةِ
سیّدنا جابر بن عبداللہ نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لئے (غزوہ بنی مصطلق میں) بھیجا۔ میں جا کر واپس آیا میں نے کام پورا کر دیا تھا پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو سلام کیا لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا میرے دل میں اللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لئے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میں پہلے سے بھی زیادہ خیال آیا پھر میں نے (تیسری مرتبہ) سلام کیا اور اب آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے دوبار جو میں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب المساجد ومواضع الصلاة/حدیث: 313]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 21 كتاب العمل في الصلاة: 15 باب لا يردّ السلام في الصلاة»