اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
71. باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنة بغير حساب ولا عذاب
71. باب: مسلمانوں کے ایک گروہ کا بغیر حساب عذاب کے جنت میں داخل ہونے کا بیان
حدیث نمبر: 129
129 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: يَدْخُلُ مِنْ أُمَّتِي زُمْرَةٌ هُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا تُضِيءُ وُجُوهُهُمْ إِضَاءَةَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ الأَسَدِيُّ يَرْفَعُ نَمِرَةً عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: اللهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، فَقَالَ: سَبَقَكَ عُكَّاشَةُ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کی ایک جماعت جنت میں داخل ہو گی جس کی تعداد ستر ہزار ہو گی ان کے چہرے اس طرح روشن ہوں گے جیسے چودھویں رات کا چاند روشن ہوتا ہے۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ اس پر سیّدنا عکاشہ بن محصن اسدی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اپنی دھاری دار کملی جو ان کے جسم پر تھی اٹھاتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ انہیں بھی ان میں سے کر دے اس کے بعد ایک اور صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کر دے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 129]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 50 باب يدخل الجنة سبعون ألفًا بغير حساب»

حدیث نمبر: 130
130 صحيح حديث سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعُونَ أَلْفًا، أَوْ سَبْعُمِائَةِ أَلْفٍ (لاَ يَدْرِي الرَّاوِي أَيَّهُمَا قَالَ) مُتَمَاسِكونَ آخِذٌ بَعْضُهُمْ بعضًا، لاَ يَدْخُلُ أَوَّلُهُمْ حَتَّى يَدْخُلَ آخِرُهُمْ، وُجُوهُهُمْ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ
سیّدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے ستر ہزار یا سات لاکھ آدمی جنت میں جائیں گے راوی کو شک ہوا کہ سہل سے کونسی تعداد بیان ہوئی تھی (وہ جنت میں اس طرح داخل ہوں گے کہ) وہ ایک دوسرے کو تھامے ہوئے ہوں گے۔ ان میں کا اگلا ابھی اندر داخل نہ ہونے پائے گا کہ جب تک آخری بھی داخل نہ ہو جائے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوں گے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 51 باب صفة الجنة والنار»

حدیث نمبر: 131
131 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ فَجَعَلَ يَمُرُّ النَّبِيُّ مَعَهُ الرَّجُلُ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الرَّجُلاَنِ، وَالنَّبِيُّ مَعَهُ الرَّهْطُ، وَالنَّبِيُّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، وَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَرَجَوْتُ أَنْ تَكُونَ أُمَّتِي، فَقِيلَ هذَا مُوسى وَقَوْمُهُ؛ ثُمَّ قِيلَ لي انْظُرْ، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ لِي انْظُرْ هكَذَا وَهكَذَا، فَرَأَيْتُ سَوَادًا كَثِيرًا سَدَّ الأُفُقَ، فَقِيلَ هؤُلاَءِ أُمَّتُكَ، وَمَعَ هؤُلاَءِ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بَغَيْرِ حِسَابٍ فَتَفَرَّقَ النَّاسُ وَلَمْ يُبَيِّنْ لَهُمْ؛ فَتَذَاكَرَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: أَمَّا نَحْنُ فَوُلِدْنا فِي الشِّرْكِ، وَلكِنَّا آمَنَّا بِاللهِ وَرَسُولِهِ، وَلكِنَّ هؤُلاَءِ هُمْ أَبْنَاؤُنَا فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هُمُ الَّذِينَ لاَ يَتَطَيَّرُونَ وَلاَ يَسْتَرْقُونَ وَلاَ يَكْتَوُونَ وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ فَقَامَ عُكَّاشَةُ بْنُ مِحْصَنٍ، فَقَالَ أَمِنْهُمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: نَعَمْ فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: أَمِنْهُمْ أَنَا فَقَالَ: سَبَقَكَ بِهَا عُكَّاشَةُ
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ہمارے پاس باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ (خواب میں) مجھ پر تمام امتیں پیش کی گئیں بعض نبی گذرتے اور ان کے ساتھ (ان کی اتباع کرنے والا) صرف ایک ہوتا بعض گذرتے اور ان کے ساتھ دو ہوتے بعض کے ساتھ پوری جماعت ہوتی اور بعض کے ساتھ کوئی بھی نہ ہوتا پھر میں نے ایک بڑی جماعت دیکھی جس سے آسمان کا کنارہ ڈھک گیا تھا میں سمجھا کہ یہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی امت کے لوگ ہیں پھر مجھ سے کہا کہ دیکھو ادھر دیکھو میں نے دیکھا کہ بہت سی جماعتیں ہیں جو تمام افق پر محیط تھیں کہا گیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بے حساب جنت میں داخل کیے جائیں گے پھر صحابہ مختلف جگہوں میں اٹھ کر چلے گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ یہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے صحابہ کرام نے آپس میں اس کے متعلق مذاکرہ کیا اور کہا کہ ہماری پیدائش تو شرک میں ہوئی تھی البتہ بعد میں ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آئے لیکن یہ ستر ہزار ہمارے بیٹے ہوں گے جو پیدائش ہی میں مسلمان ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ ستر ہزار وہ لوگ ہوں گے جو بد فالی نہیں کرتے نہ منتر سے جھاڑ پھونک کراتے ہیں اور نہ داغ لگاتے ہیں بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں یہ سن کر حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ فرمایا کہ ہاں ایک دوسرے صاحب (سیّدناسعد بن عبادہ) نے کھڑے ہو کر عرض کیا میں بھی ان میں سے ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے (کہ تم سے پہلے عکاشہ کے لیے جو ہونا تھا وہ ہو چکا) [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 76 كتاب الطب: 42 باب من لم يَرْقِ»

حدیث نمبر: 132
132 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قبَّةٍ، فَقَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ، قَالَ: أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قُلْنَا: نَعَمْ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنِّي لأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لاَ يَدْخُلُها إِلاَّ نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلاَّ كَالشَّعَرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَسْوَدِ، أَوْ كَالشَّعَرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الأَحْمَرِ
سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں آپ نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو ہم نے کہا جی ہاں پھر آپ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے مجھے امید ہے کہ تم لوگ (امت مسلمہ) اہل جنت کا آدھا حصہ ہو گے اور ایسا اس لئے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان (تعداد میں) اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ رنگ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 45 باب كيف الحشر»