43. باب إِذا هم العبد بحسنة كتبت وإِذا هم بسيئة لم تكتب
43. باب: جب بندہ دل میں نیکی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی نیکی لکھ لی جاتی ہے اور اگر برائی کا ارادہ کرے تب تک نہیں لکھی جاتی جب تک اس پر عمل نہ کر لے
حدیث نمبر: 80
80 صحيح حديث أَبي هُرَىْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذا أَحْسَنَ أَحَدُكُمْ إِسْلامَهُ فَكُلُّ حَسَنَةٍ ىَعْمَلُها تُكْتَبُ لَهُ بِعَشْرِ أَمْثالِها، إِلى سَبْعِمائَةِ ضِعْفٍ، وَكُلُّ سَيِّئَةٍ يَعْمَلُها تُكْتَبُ لَهُ بِمِثْلِها
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص جب اپنے اسلام کو عمدہ بنا لے (یعنی نفاق اور ریا سے پاک کرے) تو ہر نیک کام جو وہ کرتا ہے اس کے عوض دس سے لے کر سات سو گنا تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور ہر برا کام جو کرتا ہے تو وہ اتنا ہی لکھا جاتا ہے (جتنا کہ اس نے کیا ہے)۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 80]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 2 كتاب الإيمان: 31 باب حسن إسلام المرء»
وضاحت: حضرت امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد بصیرت کی بنا پر یہاں بھی اسلام وایمان کے ایک ہونے اور ان میں کمی وبیشی کے صحیح ہونے کے عقیدہ کا اثبات فرمایا ہے۔ اور بطور دلیل ان احادیث کو نقل فرمایا ہے جن سے صاف ظاہر ہے کہ ایک نیکی کا ثواب جب سات سو گنا تک لکھا جاتا ہے تو یقینا اس سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے اور کتاب وسنت کی رو سے یہی عقیدہ درست ہے۔ (راز)
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں مقدر کر دی ہیں اور پھر انہیں صاف صاف بیان کر دیا ہے پس جس نے کسی نیکی کا ارادہ کیا لیکن اس پر عمل نہ کر سکا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں دس گنے سے سات سو گنے تک نیکیاں لکھی ہیں اور اس سے بڑھا کر، اور جس نے کسی برائی کا ارادہ کیا اور پھر اس پر عمل نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے اپنے یہاں ایک نیکی لکھی ہے اور اگر اس نے ارادہ کے بعد اس پر عمل بھی کر لیا تو اپنے یہاں اس کے لئے ایک برائی لکھی ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 81]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 81 كتاب الرقاق: 31 باب من هم بحسنة أو بسيئة»