سیّدنا مقداد بن اسود یعنی مقداد بن عمرو کندی رضی اللہ عنہ بنی زہرہ کے حلیف تھے اور بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہوں نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اگر کسی موقع پر میری کسی کافر سے ٹکر ہو جائے اور ہم دونوں ایک دوسرے کو قتل کرنے کی کوشش میں لگ جائیں اور وہ میرے ایک ہاتھ پر تلوار مار کر اسے کاٹ ڈالے پھر وہ مجھ سے بھاگ کر ایک درخت کی پناہ لے کر کہے میں اللہ پر ایمان لے آیا تو کیا یا رسول اللہ اس کے اس اقرار کے بعد پھر بھی میں اسے قتل کر دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم اسے قتل نہ کرنا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ دہ پہلے میرا ایک ہاتھ بھی کاٹ چکا ہے؟ اور یہ اقرار میرے ہاتھ کاٹنے کے بعد کیا ہے؟ آپ نے پھر بھی یہی فرمایا کہ اسے قتل نہ کر کیوں کہ اگر تو نے اسے قتل کر ڈالا تو اسے قتل کرنے سے پہلے جو تمہارا مقام تھا اب اس کا وہ مقام ہو گا اور تمہارا مقام وہ ہو گا جو اس کا مقام اس وقت تھا جب اس نے اس کلمہ کا اقرار نہیں کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 61]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 12 باب حدثني خليفة»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ قداد بن عمرو بن ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے نام سے معروف ہیں۔ انہوں نے اسود بن عبد یغوث زہری کی گود میں پرورش پائی تھی اور ان کے متبنّٰی تھے۔ سابقین اولین صحابہ میں سے ہیں۔ بدر میں بطور گھڑ سوار شریک ہوئے۔ بارعب شخصیت کے مالک تھے تقریباً ستر سال کی عمر پانے کے بعد ۳۳ ہجری کو وفات پائی۔ سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ بہت سی احادیث کے راوی ہیں۔
سیّدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ حرقہ کی طرف بھیجا ہم نے صبح کے وقت ان پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی پھر میں اور ایک اور انصاری صحابی اس قبیلہ کے ایک شخص (مرداس بن عمرو) سے بھڑ گئے جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگا انصاری تو فورا ہی رک گیا لیکن میں نے اسے اپنے برچھے سے قتل کر دیا جب ہم لوٹے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی خبر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا اسامہ کیا اس کے لا الہ الا اللہ کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا؟ میں نے عرض کیا کہ قتل سے بچنا چاہتا تھا (اس نے یہ کلمہ دل سے نہیں پڑھا تھا) آپ بار بار یہی فرماتے رہے (کیا تم نے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے پر بھی اسے قتل کر دیا) حتی کہ میرے دل میں یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے اسلام نہ لاتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 62]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 45 باب بعث النبي صلی اللہ علیہ وسلم أسامة بن زيد إلى الحرقات من جهينة»
وضاحت: راوي حدیث: سیّدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب غلام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنّٰی سیّدنا زید رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ ان کی والدہ ام ایمن رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی مبارک میں جس آخری لشکر کو ترتیب دیا اور جس میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ور دوسرے کبار صحابہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس لشکر کا سپہ سالار سیّدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بڑی محبت کرتے تھے۔ انہیں اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پکڑ کر فرمایا تھا کہ یا اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت فرما۔ ۱۲۸ احادیث کے راوی ہیں۔ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں وفات پائی۔