صحيح ابن خزيمه
جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا
ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
1999. ‏(‏258‏)‏ بَابُ وَقْتِ الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَةَ خِلَافَ سُنَّةِ أَهْلِ الْكُفْرِ وَالْأَوْثَانِ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ‏.‏
1999. جاہلیت میں اہل کفر اور بت پرستوں کے عرفات سے لوٹنے کے وقت کے برخلاف مسلمانوں کی روانگی کے وقت کا بیان
حدیث نمبر: 2837
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں ٹھہرے رہے پھر غروب آفتاب کے بعد آپ واپس (مزدلفہ) لوٹے آپ نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ جناب محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ جناب جعفر بن محمد کی اپنے والد سے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اس باب کے متعلق ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2837]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح

حدیث نمبر: 2838
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ وَهُوَ ابْنُ وَهْرَامَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ كَأَنَّهَا الْعَمَائِمُ عَلَى رُءُوسِ الرِّجَالِ دَفَعُوا، فَيَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حَتَّى إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَكَانَتْ عَلَى رُءُوسِ الْجِبَالِ كَأَنَّهَا الْعَمَائِمُ عَلَى رُءُوسِ الرِّجَالِ دَفَعُوا، فَأَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الدَّفْعَةَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، ثُمَّ صَلَّى الصُّبْحَ بِالْمُزْدَلِفَةِ حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ، ثُمَّ دَفَعَ حِينَ أَسْفَرَ كُلُّ شَيْءٍ فِي الْوَقْتِ الآخِرِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ" ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا أَبْرَأُ مِنْ عُهْدَةِ زَمْعَةَ بْنِ صَالِحٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ عرفات میں ٹھہرے رہتے حتّیٰ کہ جب سورج پہاڑوں کی چوٹیوں پر اس طرح ہو جاتا جیسے آدمیوں کے سروں پر پگڑیاں ہوتی ہیں تو وہ مزدلفہ لوٹ آتے۔ پھر مزدلفہ میں ٹھہرتے حتّیٰ ٰکہ جب سورج طلوع ہو جاتا اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر مردوں کے سروں پر پگڑیوں کی طرح ہو جاتا تو (منیٰ) لوٹ آتے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات سے روانگی کو غروب آفتاب تک مؤخر کردیا، پھر صبح کی نماز مزدلفہ میں ادا کی جبکہ فجر طلوع ہوگئی پھر سورج طلوع ہونے سے پہلے آخری گھڑی میں منیٰ روانہ ہوئے جبکہ ہر چیز روشن ہو چکی تھی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں زمعہ بن صالح راوی کی ذمہ داری سے براءت کا اظہار کرتا ہوں۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2838]
تخریج الحدیث: حسن لغيره