ایسے افعال کے ابواب کا مجموعہ کے محرم کے لئے، جنہیں کرنے کے جواز میں علماء کا اختلاف ہے ¤ جبکہ سنّت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواز اور اباحت پر دلالت کرتی ہے
۔ اس سلسلے میں ایک مجمل روایت کا بیان، جبکہ بعض روایات کے الفاظ عام ہیں جب کہ ان سے مراد خاص ہے۔ جیسا کہ ہمارا قاعدہ ہے [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: Q2665]
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کوقتل کرنے والے شخص پر کوئی گناہ نہیں وہ یہ ہیں، بچّھُو، چیل، چوہیا، اور کاٹنے والا کتّا (اور کوّا)۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2665]
سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ سے بھی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کی مثل مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کے قتل کرنے پر مجرم شخص کو کوئی گناہ نہیں ہے، کوّا، چیل، پچُّھو، چوہیا، اور کاٹنے والا کُتّا۔“ سیدنا ابوہریر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ مختلف آۓ ہیں کہ ”سانپ، بھیڑیا، اور کاٹنے والا کُتّا “۔ انہیں قتل کرنے پر مجرم کو کوئی گناہ نہیں ہے۔ جناب ابن ابی مریم بھی یہ حدیث بیان کرتے ہیں مگر ان کی روایت میں ان الفاظ کا ذکر ہے، ”سانپ، بھیڑیا، چیتا اور کاٹنے والا کُتّا “ جناب محمد بن یحیٰی فرماتے ہیں، گویا کہ انہوں نے کھاٹنے والے کُتّے کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ اس سے مراد سانپ، بھیڑیا اور چیتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2666]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ جانوروں کو حرم کی حدود میں مارنا جائز ہے، سانپ، بچّھو، چوہیا، چیل اور کاٹنے والا کُتّا۔“ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام محمد بن یحییٰ نے کاٹنے والے کُتّے کی تفسیر کرتے ہوئے سانپ کا ذکر کیا ہے ممکن ہے کہ ان کی سبقت لسانی ہو کیونکہ سانپ کا کُتّے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں اور نہ سانپ پر کُتّے کا لفظ بولا جاتا ہے۔ البتہ چیتے اور بھیٹریے پر کُتّے کا اطلاق ہوتا ہے۔ جناب حاتم بن اسماعیل کی روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپ اور کاٹنے والے کُتّے میں فرق کیا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ اس روایت میں کاٹنے والے کُتّے سے مراد سانپ ہو کہ سانپ پر کُتّے کا لفظ بولا جاتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ أَفْعَالٍ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي إِبَاحَتِهِ لِلْمُحْرِمِ، نَصَّتْ سُنَّةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ دَلَّتْ عَلَى إِبَاحَتِهَا/حدیث: 2667]