صحيح ابن خزيمه
رمضان المبارک میں سفر کے دوران جن لوگوں کے لئے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے ان کے ابواب کا مجموعہ
1380.
1380. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نافرمان اس لئے قرار دیا تھا کہ آپ نے انہیں روزہ کھولنے کا حُکم دیا تھا اور اُنہوں نے روزہ رکھے رکھا اور کھولا نہیں۔ اور جس شخص کو کسی کام کا حُکم دیا جائے اگرچہ وہ کام مباح ہو یا فرض، واجب تو مباح کام کے ترک کرنے والے کو بھی نافرمان کہنا جائز ہے
حدیث نمبر: Q2020
[صحيح ابن خزيمه/حدیث: Q2020]
تخریج الحدیث:

حدیث نمبر: 2020
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک میں سفر کیا تو آپ کے ایک صحابی پر روزہ نہایت مشکل ہوگیا تو اُس کی سواری باربار درختوں کے سائے تلے جانے لگی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے روزہ افطار کرنے کا حُکم دیا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا، اُسے اپنے ہاتھ پر رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوش فرمایا جبکہ لوگ دیکھ رہے تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2020]
تخریج الحدیث: اسناده صحيح

حدیث نمبر: 2021
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ الأَمْرِ فَرَغِبَ عَنْهُ رِجَالٌ. فَقَالَ: " مَا بَالُ رِجَالٍ آمُرُهُمْ بِالأَمْرِ يَرْغَبُونَ عَنْهُ وَاللَّهِ إِنِّي لأَعْلَمُهُمْ بِاللَّهِ , وَأَشَدُّهُمْ لَهُ خَشْيَةً"
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسئلہ میں رخصت دی تو کچھ لوگوں نے اس سے بے رغبتی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کچھ لوگوں کو کیا ہوا ہے کہ میں اُنہیں ایک چیز کا حُکم دیتا ہوں تو وہ اس سے بے رغبتی کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم، میں ان سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جانتا ہوں اور ان سب سے زیادہ اُس سے ڈرنے والا ہوں۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2021]
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔

حدیث نمبر: 2022
قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَفِي خَبَرِ أَبِي سَعِيدٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى عَلَى نَهَرٍ مِنْ مَاءِ السَّمَاءِ , مِنْ هَذَا الْجِنْسِ أَيْضًا. قَالَ فِي الْخَبَرِ:" إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ , إِنِّي رَاكِبٌ , وَأَنْتُمْ مُشَاةٌ , إِنِّي أَيْسَرُكُمْ". فَهَذَا الْخَبَرُ دَلَّ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ وَأَمَرَهُمْ بِالْفِطْرِ فِي الابْتِدَاءِ , إِذْ كَانَ الصَّوْمُ لا يَشُقُّ عَلَيْهِ , إِذْ كَانَ رَاكِبًا، لَهُ ظَهْرٌ , لا يَحْتَاجُ إِلَى الْمَشْيِ , وَأَمَرَهُمْ بِالْفِطْرِ , إِذْ كَانُوا مُشَاةً يَشْتَدُّ عَلَيْهِمُ الصَّوْمُ مَعَ الرَّجَّالَةِ , فَسَمَّاهُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُصَاةً إِذِ امْتَنَعُوا مِنَ الْفِطْرِ بَعْدَ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِيَّاهُمْ بَعْدَ عِلْمِهِ أَنْ يَشْتَدَّ الصَّوْمُ عَلَيْهِمْ , إِذْ لا ظَهْرَ لَهُمْ , وَهُمْ يَحْتَاجُونَ إِلَى الْمَشْيِ
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برساتی نہر پر تشریف لائے۔ بھی اسی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ اس روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں سواری پر سوار ہوں اور تم پیدل چل رہے ہو، میں تمہاری نسبت زیادہ آسانی اور سہولت میں ہوں۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ابتداء میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا ہوا تھا اور صحابہ کو روزہ کھولنے کا حُکم دیا تھا۔ کیونکہ آپ سواری پر تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روزے میں مشقّت نہیں تھی اور آپ کی سواری ہونے کی وجہ سے آپ پیدل چلنے سے بے نیاز تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو روزہ کھولنے کا حُکم دیا کیونکہ وہ پیدل چل رہے تھے جس کی وجہ سے اُن کے لئے روزہ رکھنا بڑا مشکل ہوگیا تھا۔ لہٰذا جب اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کے باوجود روزہ نہ کھولا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں نافرمان قرار دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں یہ حُکم اس اطلاع کے بعد دیا تھا کہ روزہ اُن کے لئے مشکل ہو چکا ہے کیونکہ سواریاں نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیدل چلنے پر مجبور تھے۔ [صحيح ابن خزيمه/حدیث: 2022]
تخریج الحدیث: تقدم۔۔۔