جناب محمود بن ربیع بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور جنگ بدر میں شرکت کا شرف حاصل کرنے والے انصار میں سے ایک ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میں اپنی قوم کو نماز پڑھاتا ہوں- پس جب بارشوں کا موسم آتا ہے تو میرے اور اُن کے درمیان وقع وادی بہنے لگتی ہے۔ تو اُن کی مسجد میں جاکر اُنہیں نماز نہیں پڑھا سکتا۔ اس لئے میری خواہش ہے کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز ادا کریں تا کہ میں اُس جگہ کو اپنی نماز گاہ بنا لوں - تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عنقریب (تمھاری یہ خواہش پوری) کروں گا - ان شاء اللہ۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، تو دوسرے دن سورج چڑھنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے - رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی (آپ کو خوش آمدید کہا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے بغیر گھر میں داخل ہوئے پھر پوچھا: ”تم اپنے گھر میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں؟“ کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ لہٰذا رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم (اُس جگہ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی۔ ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر صف بنالی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعات ادا کر کے سلام پھیرا۔ پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے لئے خزیر (گوشت اور آٹے سے تیار کردہ خاص قسم کا کھانا) کے لئے آپ کو بٹھا لیا، فرماتے ہیں کہ (اس درمیان) محلّے کے لوگ مسلسل آتے رہے حتّیٰ کہ ہمارے گھر میں لوگوں کی کافی تعداد جمع ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”مالک بن دخیشن کہاں ہے؟“ ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ تو منافق آدمی ہے، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کر تا (اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر حاضر نہیں ہوا)۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اُس کے بارے میں ایسا مت کہو، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ وہ اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کر تا ہے؟ تو اُس شخص نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول ہی بہترجانتے ہیں۔ ہم تو اس کی تعلق داری اور سچی دوستی و محبت منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ نے آگ پر اُس شخص کو حرام کر دیا جو خالص اللہ کی رضا کے لئے «لَا إِلٰهَ إِلَّا الله» کا اقرار کرتا ہے - امام محمد زہری رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں نے حصین بن محمد انصاری سے، جو کہ بنی سالم کے ایک سردار ہیں، حضرت محمود بن ربیع کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے ان کی تصدیق کی۔“[صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1653]
جناب معمر کی امام زہری سے روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بیشک میری نظر کمزور ہوگئی ہے۔ یہ الفاظ اس شخص پر بولے جاتے ہیں جس کی بینائی میں نقص و کمزوری ہو اگرچہ اسے تھوڑا سا دکھائی بھی دیتا ہو - اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ مکمّل نابینا ہو چکے ہوں اور اُنہیں کچھ دکھائی نہ دیتا ہو- مجھے اس بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ بعد میں مکمّل بینائی سے محروم ہوگئے تھے، وہ بالکل دیکھ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا تھا تو اُس وقت اُن کی بینائی میں کچھ نقص تھا (مکمّل نابینا نہ تھے) حتّیٰ کہ مجھے اس روایت کے الفاظ سے یقین ہوگیا (کہ واقعی وہ سوال کے وقت مکمّل نابینا نہ تھے)۔ جناب معمر کی روایت میں الفاظ ہیں۔ سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی، بلاشبہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور سیلاب میرے اور میری قوم کی مسجد کے درمیان حائل ہو جاتا ہے۔ (اس لئے) میری خواہش ہے کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گھر کسی جگہ نماز ادا کریں جسے میں اپنے لئے جائے نماز بنا لوں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں (تمہاری یہ خواہش پوری) کروں گا ان شاء اللہ۔“ پھر مکمْل حدیث بیان کی۔ [صحيح ابن خزيمه/جِمَاعُ أَبْوَابِ الْعُذْرِ الَّذِي يَجُوزُ فِيهِ تَرْكُ إِتْيَانِ الْجَمَاعَةِ/حدیث: 1654]