سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، ایک، دو، تین یا چار پڑھی ہیں؟ تو وہ اتنی رکعات مکمّل کرلے جن میں اسے شک ہو، پھر وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجے کرلے، چنانچہ اگر اس کی نماز نا مکمّل تھی تو اُس نے اب پوری کرلی اور دو سجدے شیطان کی ذلت و خواری کا سبب ہوں گے، اور اگر اُس نے اپنی نماز مکمّل کرلی تھی تو (یہ زائد) رکعت اور دو سجدے اس کے لئے نفل ہوں گے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1024]
امام صاحب فرماتے ہیں کہ امام ربیع نے ہمیں ایک مر تبہ اپنی کتاب سے بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ لہٰذا وہ یقین پر بنا کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور جناب ابوموسٰی دورتی اور یونس نے اپنی روایت میں کہا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت پڑھ لینی چاہیے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ ان کی باقی روایت جناب ربیع کی روایت کی طرح ہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله نے فرمایا کہ اس حدیث میں میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار شخص کا مال جب اس کے پاس موجود نہ ہو (تجارت وغیرہ کی غرض سے کسی علاقے میں بیٹھا ہوا ہو) پھر وہ اس کی زکوٰۃ نکال کر صدقے کے حق داروں کو پہنچادے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اگر اس کا مال صحیح سلامت ہوا تو یہ اس کی زکوٰۃ ہے اور اگر اس کا مال ہلاک و تباہ ہو چکا ہوا تو یہ نفلی صدقہ ہے، پھر اسے صحیح اطلاع مل گئی کہ اس کا مال صحیح سلامت ہے تو اس کا وہ مال جو اُس نے اپنے غیر موجود مال کی فرض زکوٰۃ کے طور پر صدقہ و زکوٰۃ کے حق داروں کو پہنچایا تھا وہ جائز اور درست ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کی ایک رکعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جو اُس نے دو طرح کی نیت سے ادا کی تھی۔ کہ اگر اس کی ادا شدہ نماز تین رکعات ہوئی تو یہ اس کی چوتھی فرض رکعت ہوگی، اور اگر اس کی نماز مکمّل ہو چکی تھی تو یہ رکعت نفل ہوگی۔ اور اس کی یہ رکعت فرض نماز سے کفایت کرجائے گی حالانکہ اس نے یہ رکعت فرض یا نفل کی نیت سے ادا کی تھی۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ السَّهْوِ فِي الصَّلَاةِ/حدیث: 1025]