سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساز و سامان کی کثرت مال داری نہیں، مال داری تو دل کی بے نیازی (کا نام) ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1207]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6496، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 104، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20422، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8850»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساز و سامان کی کثرت مال داری نہیں، مال داری تو دل کی بے نیازی (کا نام) ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1208]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6496، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 104، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20422، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8850»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! ساز و سامان کی کثرت مال داری نہیں، مال داری تو دل کی بے نیازی (کا نام) ہے، پھر بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ ٰ ہر بندے کو پورا پورا رزق دے گا جو اس نے اس کے لیے لکھا ہے لہٰذا تم عمدہ طریقے سے رزق طلب کرو، جو حلال ہو وہ لے لو اور جو حرام ہو اسے چھوڑ دو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1209]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساز و سامان کی کثرت مال داری نہیں بلکہ (اصل) مال داری دل کی بے نیازی (کا نام) ہے۔“ اسے مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1210]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6496، و مسلم 1051، والترمذي: 2373، و ابن ماجه: 4137، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8850»
حدیث نمبر: 1211
1211 - أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْخَضِرِ الْخَوْلَانِيُّ، نا أَبُو الْفَرَجِ، مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَبْدَانَ، نا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ الصُّوفِيُّ، نا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، نا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يَعْنِي عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، حَ. ونا الصَّدَفِيُّ، نا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارٍ، نا ابْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، مِثْلَهُ
یہ حدیث ایک دوسری سند کے ساتھ بھی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی طرح مروی ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1211]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6496، و مسلم 1051، والترمذي: 2373، و ابن ماجه: 4137، وأحمد فى «مسنده» برقم: 8850»
وضاحت: تشریح: - مطلب یہ ہے کہ زیادہ مال ہونا مال داری کی دلیل نہیں بلکہ اصل مال داری اور غنی تو دل کی مال داری اور غنی ہے۔ انسان کے پاس تھوڑا ہو یا بہت، جو کچھ بھی ہو، وہ اس پر گزارہ کرے، دنیا سے بے نیاز رہے اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، ہر وقت اللہ تعالیٰ ٰ کی رضا پر صابر و شاکر رہے۔ ہاں یہ حقیقت ہے کہ دل کی تونگری اور مال داری کسی نصیبے والے کے حصے میں ہی آتی ہے ورنہ اکثریت دل کے فقیروں کی ہے، غریب تو غریب اکثر مال دار طبقہ بھی دل کا فقیر ہی دیکھا گیا ہے، وہ زیادہ مال کے حصول کی کوشش میں اس قدر ڈوبے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو کیا انہیں خود اپنی ہوش نہیں ہوتی، ہاں جن خوش بختوں کو دل کی تو نگری مل جائے ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ تب بھی صبر وقناعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ٰ کی یاد میں رہتے ہیں، دوسروں کے مال کی طرف نہ ان کا خیال جاتا ہے اور نہ وہ لوگوں سے کچھ طلب کرتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد سے وہ غفلت نہیں برتتے کیونکہ انہیں یہ علم ہوتا ہے کہ دنیا کا مال تو فانی اور ختم ہو جانے والا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ ٰ کے پاس جو اجر و ثواب ہے وہ بھی ختم ہونے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ٰ ہمیں دل کی تو نگری نصیب فرمائے۔ آمین