سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میرے ساتھ اشعری قبیلے کے دو آدمی بھی تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے موسی!“ یا فرمایا: ”اے عبدالله بن قیس! بے شک ہم اپنے کام پر ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1134]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2261، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1733، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3579، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3391، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2093، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1048، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19817»
وضاحت: تشریح: - یہ ایک طویل حدیث کا اختصار ہے مکمل حدیث یوں ہے: سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا میرے ساتھ دو اشعری آدمی بھی تھے، ایک میری دائیں جانب اور دوسرا بائیں جانب تھا، ان دونوں نے کسی منصب کا سوال کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسواک کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوموسیٰ! کیا کہتے ہو؟“ یا فرمایا: ”عبداللہ بن قیس! میں نے عرض کیا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، ان دونوں نے مجھے نہیں بتایا تھا کہ ان کے دل میں کیا ہے اور نہ مجھے یہ پتا تھا کہ یہ منصب کا سوال کریں گے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے ہونٹوں کے نیچے مسواک ہے جو گھس چکی ہے، آپ نے فرمایا: ”ہم اپنے کام پر ایسے شخص کو مقرر نہیں کرتے جو اس کا ارادہ رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔“ اس حدیث مبارک میں ایک نہایت عمدہ قاعدہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جو شخص از خود کوئی عہدہ و منصب طلب کرے اسے ہرگز نہ دو اور جو شخص اس سے بھاگے اسے دو بشرطیکہ وہ اس کا اہل ہو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ اگر مطالبے پر عہدہ دیا گیا تو اللہ کی طرف سے اعانت نہ ہوگی جیسا کہ سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے۔ (دیکھیں صحیح مسلم: 1652) اور جب اعانت نہ ملی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ شخص اس کا اہل نہیں ہے لہٰذا ایسے نااہل شخص کو عہدہ دینا حماقت ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کسی حق دار کو محض مطالبہ کی وجہ سے اس کے حق سے محروم کر دیا جائے بلکہ اگر کوئی شخص کسی عہدے کا اہل ہو جبکہ وہ عہدہ نا اہل لوگوں کے پاس ہو تو ایسی صورت میں اسے عہدہ دینا ضروری ہے خواہ اس کی طرف سے مطالبہ آئے یا نہ آئے جیسا کہ سیدنا یوسف صدیق علیہ السلام نے شاہ مصر سے اپنے لیے حکومتی عہد ہ طلب کیا تھا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان بھی ہے: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا﴾ (النساء: 58) ”بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے اہل کے سپرد کر دو۔“