مسند الشهاب
احادیث1001 سے 1200
701. «إِنَّ اللَّهَ إِذَا أَنْعَمَ عَلَى عَبْدٍ نِعْمَةً أَحَبَّ أَنْ تُرَى عَلَيْهِ»
701. بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر کوئی نعمت انعام کرتا ہے تو اسے اس پر دیکھنا پسند کرتا ہے
حدیث نمبر: 1100
1100 - أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي مُحَمَّدٍ الْبَزَّازُ، ثنا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّقَّاشُ، ثنا أَبُو أَيُّوبَ، سُلَيْمَانُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ، ثنا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ثنا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ مُخْتَصَرًا
ابواحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ بات ارشاد فرمائی بے شک اللہ تعالیٰ جب کسی بندے پر کوئی نعمت انعام کرتا ہے تو اسے اس پر دیکھنا پسند کرتا ہے راوی نے اسے مختصر بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1100]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5417، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 66، 7457، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4063، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2006، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2109، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19772، والحميدي فى «مسنده» برقم: 907، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 3653، 7487، 9389، والطبراني فى «الصغير» برقم: 489، وأحمد فى «مسنده» برقم: 16132»
عبدالملک بن عمیر مدلس کا عنعنہ ہے۔

حدیث نمبر: 1101
1101 - أنا أَبُو الْقَاسِمِ، سَعْدُ بْنُ عَلِيٍّ الزِّنْجَانِيُّ، نا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ الْمُؤَذِّنُ، نا أَبُو عَلِيٍّ، أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ النَّهَاوَنْدِيُّ، نا أَبُو يَعْلَى، مُحَمَّدُ بْنُ زُهَيْرٍ الْأُبُلِّيُّ، ثنا أَبُو الرَّبِيعِ، خَالِدُ بْنُ يُوسُفَ السَّمْتِيُّ، نا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ، وَيَكْرَهُ الْبُؤْسَ وَالتَّبَاؤُسَ»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ یہ بات پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے اور وہ مصیبت اور محتاجی (دکھانے) سے نفرت کرتا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1101]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، خالد بن یوسف سمتی ضعیف ہے، اس میں ایک اور علت بھی ہے۔

حدیث نمبر: 1102
1102 - أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ الْغَازِي، بِالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، أنا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، نا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، نا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُفَضَّلِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّهُ خَرَجَ عَلَيْهِمْ وَعَلَيْهِ مُقَطَّعَةُ خَزٍّ لَمْ يُرَ عَلَيْهِ مِثْلُهَا، فَقِيلَ لَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَى عَبْدٍ أَحَبَّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتَهُ عَلَيْهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ: قَدْ أَسْنَدَ شُعْبَةُ عَنْ هَذَا الشَّيْخِ حَدِيثَيْنِ، وَلَا نَعْلَمُ لَهُ رَاوِيًا غَيْرَ شُعْبَةَ، وَلَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْمُفَضَّلِ قَرَابَةٌ، فَإِنَّ هَذَا بَصْرِيٌّ، وَالْمُفَضَّلُ حِجَازِيٌّ، وَقَدْ تَفَرَّدَ بِالرِّوَايَةِ عَنْ شُيُوخٍ لَمْ يَرْوِ عَنْهُمْ غَيْرُهُ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ ریشمی رومال اوڑھے باہر نکلے (اس سے پہلے) ان پر اس طرح کا (قیمتی) کپڑا نہیں دیکھا گیا تھا ان پر اعتراض ہوا تو انہوں نے کہا: بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ کسی بندے پر انعام کرتا ہے تو وہ یہ بات پسند کرتا ہے کہ اس پر اپنی نعمت کا اثر دیکھیے۔
ابوعبد الله محمد بن عبد اللہ الحافظ (امام حاکم رحمہ اللہ) کہتے ہیں: اس شیخ (مفضل بن فضالہ) سے شعبہ نے دو حدیثیں لی ہیں اور ہمارے علم میں شعبہ کے سوا کسی نے ان سے روایت نہیں لی، ان کے اور شعبہ کے درمیان کوئی قریبی تعلق نہیں کیونکہ یہ (شعبہ) بصری ہیں اور مفضل حجازی ہیں اور یقین کریں کہ شعبہ کئی (شیوخ) سے روایت کرنے میں منفرد ہے، ان (شیوخ) سے شعبہ کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1102]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أحمد: 438/4، الشكر لابن ابى الدنيا: 50، معرفة علوم الحديث: 416»

وضاحت: تشریح: -
لباس کسی کی شخصیت کا عکاس ہوتا ہے، نیز عموماً لباس سے انسان کی مالی، ذہنی اور سماجی حیثیت کا پتا بھی چلتا ہے۔ مزید برآں یہ کہ لباس سے کسی کے مہذب اور غیر مہذب ہونے کا پتا بھی چلتا ہے، اس لیے لباس صاف ستھرا، باپردہ اور مالی لحاظ سے حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔ البتہ فخر و تکبر نہیں ہونا چاہیے «ولباس التقوى ذلك خير»، صحیح لباس وہی ہے جس میں کنجوسی، فضول خرچی، عریانی، ریا کاری اور فخر سے پر ہیز کیا گیا ہو۔ لباس کے معاملے میں زیادہ تکلف بھی معیوب ہے جس سے انسان خود تنگی میں پڑ جائے۔ ریشم پہننا اور لباس ٹخنوں سے نیچے لٹکانا شرعاً حرام ہے، خواہ کسی بھی نیت سے ہو، البتہ شرعی عذر اور مجبوری قابل قبول ہے۔ [سنن نسائي: 7/ 235]