سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والدکے دوستوں سے صلہ رحمی کرے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 993]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5143، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7862، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5716، 5757، 5825»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔“ اے مسلم بن حجاج نے بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ ”بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 994]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5143، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7862، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5716، 5757، 5825»
وضاحت: تشریح: - ان احادیث سے پتا چلا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور رشتے داروں سے تعلق برقرار رکھنا اور ان سے حسن سلوک کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے نیز صلہ رحمی کا بھی یہ تقاضا ہے کہ والدین موجود ہوں یا اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہوں، ہر حال میں ان کے دوست اور رشتے داروں سے اچھا سلوک کیا جائے۔ اس سلسلے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن دینار کا بیان ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ جاتے تو ان کے پاس ایک گدھا ہوتا جب وہ اونٹ کی سواری سے اکتا جاتے تو اس پر سوار ہو کر راحت حاصل کرتے اور ایک عمامہ ہوتا جسے وہ سر پر باندھ لیتے۔ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ان کے پاس سے ایک دیہاتی گزرا آپ نے اسے کچھ پہچان کر اس سے پوچھا: کیا تو فلاں بن فلاں کا بیٹا نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں۔ آپ نے اسے وہ گدھا دے دیا اور فرمایا: اس پر سوار ہو جا اور اسے عمامہ بھی عنایت فرما دیا۔ اور کہا کہ اس کے ساتھ اپنے سر کو باندھ لے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے، آپ نے اس دیہاتی کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ دوران سفر آرام حاصل کرتے تھے اور وہ عمامہ بھی دے دیا جس کے ساتھ آپ اپنا سر باندھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں سے تعلق برقرار رکھے اور ان سے حسن سلوک کرے اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا باپ (میرے باپ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔ [مسلم: 2552] ایک مرتبہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہاری والدہ ہے؟“ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہاری خالہ ہے؟“ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔“[ترمذي: 1904، صحيح] سیدنا ابواسید حمیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کے قبیلے سے ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! کیا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی ایسی صورت ہے جس کے ذریعے میں ان کی وفات کے بعد بھی ان سے حسن سلوک کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، ان کے لیے دعا کرو، ان کے لیے مغفرت طلب کرو، ان کے بعد ان کی وصیت پر عمل کرو، جو وہ صلہ رحمی کیا کرتے تھے اسے جاری رکھو اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرو۔“[أبو داود: 5142، ابن ماجه: 3664، حسن]