سیدنا عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔“ اسے امام مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوع بیان کیا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 676]
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کیا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 677]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1923، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1095، والنسائي: 2148، والترمذي فى «جامعه» برقم: 708، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1738، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1692، والطبراني فى «الصغير» برقم: 60، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1937، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3466، وأحمد فى «مسنده» برقم: 12131»
وضاحت: تشریح: - ان احادیث میں سحری کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ سحری کرنے کا یہ حکم مستحب اور راہنمائی کے لیے ہے۔ فرض اور واجب نہیں کہ نہ کرنے والا گناہ گار شمار ہو کیونکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے بھی روزے رکھے ہیں اور وصال کے روزے ہوتے ہی وہ ہیں جن میں سحری نہیں کی جاتی لہٰذا مذکورہ حکم بہتری اور استحباب کے لیے ہے نہ کہ فرضیت کے لیے۔ بہر صورت سحری کی ترغیب بہت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کرنے کا فرق ہے۔“[مسلم: 1099] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ ”بے شک سحری میں برکت ہے جو اللہ نے تمہیں عطا فرمائی ہے لہٰذا تم (بلاوجہ) اسے مت چھوڑو۔“[نسائي: 2164، وسنده صحيح] ایک حدیث میں ہے: ”سحری کا کھانا کھایا کرو کیونکہ یہ با برکت ہے۔“[ايضاً: 2166 وسند ه صحيح] سحری کے کھانے کو بابرکت اس لیے کہا: گیا ہے کہ: ① اس وقت کھائے جانے والے کھانے میں اللہ کی طرف سے ایک خاص برکت ہوتی ہے۔ ② اس سے روزے کی تکمیل میں آسانی ہو جاتی ہے۔ ③ روزے دار کو اتنی قوت مل جاتی ہے کہ وہ دیگر عبادات میں چستی دکھا سکے۔ ④ سحری کا وقت نہایت موزوں ہے، سحری کے بہانے اٹھنے سے ان بابرکت لمحات سے دعا واستغفار کے سلسلے میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ ⑤ نماز فجر با جماعت مل جاتی ہے۔