329. جس نے اپنے بھائی سے دنیاوی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کی اللہ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا اور جس نے اپنے بھائی کی عیب پوشی کی اللہ دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور الله اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے
سیدنا ابوہريره رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”جس نے اپنے بھائی سے دنیاوی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کی اللہ اس سے قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور فرمائے گا اور جس نے اپنے بھائی کی عیب پوشی کی اللہ دنیا و آخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا اور الله اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے“ ۔ راوی علی بن عبدالعزیز نے کہا: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ”رجل“ سے مراد اعمش ہے۔ (جس سے محمد بن واسع نے روایت کیا ہے)[مسند الشهاب/حدیث: 476]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2699، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 534، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2304، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3460، 4946، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1930، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 225، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7545، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4802، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 178»
سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرے اور نہ اس پر ظلم ہونے دے اور جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ اس کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 477]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 2442، ومسلم: 2580، و أبو داود: 4893، و ترمذي: 1426»
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے مومن بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے اللہ عزوجل اس کی ضرورت پوری کرنے میں رہتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 478]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابوعثمان سعید بن محمد بن ابی موسیٰ ضعیف ہے۔
وضاحت: فائدہ: - سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایک سائل کھڑا ہوا، اس نے آپ سے سوال کیا لیکن آپ نے اس سے منہ پھیر لیا، اس نے دوبارہ سوال کیا تو آپ نے پھر منہ پھیر لیا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ تو سائل سے منہ نہیں پھیرا کرتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اس سے کسی غرض و مصلحت کے تحت ہی منہ پھیرا ہے، میں یہ چاہ رہا تھا کہ تم میں سے کوئی اس کے لیے سفارش کر دیتا تاکہ اسے بھی اجر مل جاتا، کیونکہ اللہ عزوجل مسلمان کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں رہتا ہے اور جسے یہ بات پسند ہو کہ اسے پتا چل جائے کہ اللہ کے ہاں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے تو اسے چاہیے کہ وہ دیکھے کہ اس کے نزدیک اللہ کا کیا مقام و مرتبہ ہے کیونکہ اللہ بھی بندے کو اسی مقام پر رکھتا ہے جہاں بندہ اپنے رب کو رکھتا ہے۔“[شعب الايمان: 2447، وسندہ صحيح]