مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
287. مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ
287. جس شخص کو اس کی نیکی خوش کر دے اور برائی رنجیدہ کر دے وہ مومن ہے
حدیث نمبر: 400
400 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ أبنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ النَّيْسَابُورِيُّ ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الضَّحَّاكِ، قَالَ: ثنا أَبُو مَرْوَانَ يَعْنِي مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيَّ قَالَ: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُسْلِمِ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ، وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اس کی نیکی خوش کر دے اور برائی رنجیدہ کر دے وہ مومن ہے [مسند الشهاب/حدیث: 400]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، حسین بن محمد بن ضحاک کی توثیق نہیں ملی۔

حدیث نمبر: 401
401 - أنا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَاجِّ أنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، نا أَبُو الْمُنْذِرِ، مُحَمَّدُ بْنُ سُفْيَانَ بْنِ الْمُنْذِرِ نا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ، نا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أنا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا الْإِثْمُ؟ قَالَ: «مَا يَحِيكُ فِي نَفْسِكَ فَدَعْهُ» ، قَالَ: فَمَا الْإِيمَانُ؟، قَالَ: «مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ، وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ»
سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تیرے دل میں کھٹکے، پس اسے چھوڑ دو۔ اس نے عرض کیا: ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اس کی نیکی خوش کر دے اور برائی رنجیدہ کر دے تو وہ مومن ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 401]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح،و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 176، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 33، 34، 35، 2182، 7139، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22589، 22596، 22629، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20104، والطبراني فى «الكبير» برقم: 7539، 7540، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2993»

حدیث نمبر: 402
402 - أنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الْمُعَدِّلُ، أنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الصَّائِغُ، أنا رَوْحٌ، نا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ زَيْدِ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ جَدِّهِ مَمْطُورٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ، وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ»
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو اس کی نیکی خوش کر دے اور برائی رنجیدہ کر دے تو وہ مومن ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 402]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح،و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 176، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 33، 34، 35، 2182، 7139، وأحمد فى «مسنده» برقم: 22589، 22596، 22629، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20104، والطبراني فى «الكبير» برقم: 7539، 7540، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2993»

حدیث نمبر: 403
403 - وَأَنَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ، نا أَبُو سَعِيدٍ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الْمُرِّيُّ، نا الْحُسَيْنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، خَطَبَ بِالْجَابِيَةِ فَقَالَ: قَامَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ، وَذَكَرَهُ
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ مقام پر خطبہ دیا تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں کھڑے ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ بات بھی ذکر کی۔ [مسند الشهاب/حدیث: 403]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه الترمذي: 2165، والسنن الكبرى للنسائى: 9181»

وضاحت: تشریح: -
جس شخص کو اپنی نیکی پر خوشی ہو اور بدی پر غمی ہو، تو وہ مومن ہے یعنی یہ چیز اس کے مومن ہونے کی دلیل ہے کیونکہ کفار اور منافقین نہ نیکی پر خوش ہوتے ہیں اور نہ ہی گناہ پر رنجیدہ ہوتے ہیں ان کے نزدیک نیکی اور بدی یکساں ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ﴾ (حم السجدة: 34) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔
کفار اور منافقوں کے سامنے مستقبل نہیں، اسی لیے وہ اس دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ کر اسی میں مگن رہتے ہیں، ان کے دل مر چکے ہیں، اندر سے احساسات ختم ہو چکے ہیں جبکہ مومن کے سامنے ایک مستقبل ہے، ایسا مستقبل کہ جس کی انتہا نہیں، اس لیے وہ اس دنیا کو عارضی سمجھتے ہوئے اپنے مستقبل یعنی آخرت کی فکر میں رہتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیکی کرنے پر اسے طبعی طور پر خوشی محسوس ہوتی ہے، اس کا دل مطمئن ہوتا ہے اور اگر بدی سرزد ہو جائے تو طبیعت مضطرب ہو جاتی ہے اور اسے اتنی دیر سکون نہیں ملتا جب تک کہ کوئی ایسی نیکی نہ کر لے جو اس بدی کو دور کر دیتی ہو۔

حدیث نمبر: 404
404 - وأنا أَبُو مُحَمَّدٍ التُّجِيبِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ بُهْزَاذَ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ فَهْدَ السَّاجِيُّ، نا أَبُو حُذَيْفَةَ، هُوَ مُوسَى بْنُ مَسْعُودٍ، نا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي: ابْنَ طَهْمَانَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَقَامِي هَذَا فَقَالَ: «أَكْرِمُوا أَصْحَابِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَظْهَرُ الْكَذِبُ، وَيَفْشُو قَوْمٌ يَشْهَدُ أَحَدُهُمْ لَا يُسْأَلُهَا وَيَحْلِفُ وَمَا يُسْأَلُهَا، فَمَنْ سَرَّهُ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمِ الْجَمَاعَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مَعَ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ، فَلَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ فَإِنَّ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ، وَمَنْ سَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ وَسَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ»
سیدنا عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اس جگہ پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو، پھر ان لوگوں کی جو ان کے بعد آئیں گے، پھر ان کی جو ان کے بعد آئیں گے، پھر جھوٹ ظاہر ہو جائے گا اور ایسے لوگ عام ہو جائیں گے جن میں سے ہر ایک گواہی دے گاحالانکہ اس سے وہ (گواہی) طلب نہ کی جائے گی اور وہ قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے وہ مانگی نہ جائے گی۔ پس جس شخص کو جنت کا مرکز پسند ہو وہ جماعت کو لازم پکڑ لے کیونکہ اکیلے کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے (شیطان) دور ہوتا ہے۔ پس کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے کیونکہ ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اور جس شخص کو اس کی بدی رنجیدہ کر دے اور نیکی خوش کر دے وہ مومن ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 404]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه عبد بن حميد: 23» عبد الملک بن عمیر مدلس کا عن عنعنہ ہے۔

وضاحت: فائدہ: -
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جابیہ مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح ہمارے درمیان کھڑے ہوئے تھے جیسے میں تمہارے درمیان کھڑا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: میں تمہیں اپنے صحابہ کے متعلق خیر کی نصیحت کرتا ہوں، پھر ان کے متعلق جو ان کے بعد آئیں گے، پھر ان کے متعلق جو ان کے بعد آئیں گے، پھر جھوٹ عام ہو جائے گا حتی کہ آدمی پوچھنے سے پہلے ہی از خود گواہی دے گا اور پوچھے جانے سے قبل ہی از خود قسم اٹھائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص جنت کا مرکز چاہتا ہو وہ جماعت کو لازم پکڑ لے کیونکہ اکیلے کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور دو سے دور رہتا ہے اور تم میں سے کوئی کسی عورت کے ساتھ تنہائی میں نہ جائے کیونکہ ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ اور جسے اس کی نیکی خوش کر دے اور بدی رنجیدہ کر دے تو وہ مومن ہے۔ [صحيح ابن حبان: 4257 صحيح]