سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کا تفقہ (سمجھ بوجھ) عطا فرماتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 345]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابومسلم محمد بن أحمد بن علی کی توثیق نہیں ملی۔
محمد بن کعب کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کا تفقہ عطا فرماتا ہے۔“ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 346]
وضاحت: تشریح: - اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ دین کا تفقہ، اس کا فہم، اور اس کی سمجھ بوجھ خیر عظیم اور نعمت، عظمٰی ہے اور یہ صرف اسی خوش نصیب کے حصے میں آتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ ٰ خوش ہو اور جس کے ساتھ اس نے بھلائی کا ارادہ کیا ہو۔ اس حدیث میں اس شخص کے لیے بڑی خوشخبری ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی سمجھ بوجھ سے نوازا ہے۔ دین کی سمجھ بوجھ میں سرفہرست اللہ تعالیٰ ٰ کی معرفت اور توحید ہے۔ اللہ تعالیٰ ٰ کا فرمان ہے: ﴿فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا اللَّهُ﴾ (محمد: 19)”پس جان لیجیے حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں ہے۔“ توحید کی سمجھ آگئی تو خیر اور بھلائی مل گئی اور اگر توحید ہی سمجھ میں نہ آسکی تو خواہ کتنے ہی علوم کیوں نہ جانتا ہو، خیر و بھلائی سے محروم ہے۔ یہ علوم دنیا کے لیے تو فائدہ مند ہو سکتے ہیں مگر آخرت کے لیے نہیں۔