سیدنا ابوہريره رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جنگل میں جا کر رہائش اختیار کی وہ سخت دل ہوا، جو شکار کے پیچھے لگا وہ غافل ہوا، اور جو حاکم کے دروازوں پر گیا وہ فتنے میں مبتلا ہو گیا۔“[مسند الشهاب/حدیث: 339]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه النسائي برقم: 4314، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4802، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2859، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2256، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20312، 20313، وأحمد فى «مسنده» برقم: 3425، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33628، والطبراني فى «الكبير» برقم: 11030، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 556، وشعب الايمان: 8956»
وضاحت: تشریح: - ① اس حدیث مبارک سے بادیہ نشینی اور صحرانشینی کی مذمت کا پہلو نکلتا ہے اور وہ اس طرح کہ ایسا شخص زیادہ تر اہل علم کی مجلس سے دور ہی رہتا ہے، اسی طرح وہ اخلاق فاضلہ سے بھی خیر و برکات اور فہم دین کی مجالس و محافل سے بھی اکثر و بیشتر الگ تھلگ رہتا ہے۔ ② شرعاً ایک حد تک شکار کرنے کی اجازت ہے، تاہم یہ حدیث مبارک اس اہم مسئلے کی وضاحت بھی کرتی ہے کہ کسی انسان کا محض شکار کا ہو کر رہ جانا انتہائی مذموم ہے، اس لیے کہ ایسا شخص اپنے دینی اور دنیوی واجبات و فرائض سے غافل ہو جاتا ہے۔ شکار کے لیے جانا بالکل ممنوع نہیں۔ اگر شکار ممنوع ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عدی بن حاتم اور سیدنا ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ کو اس کی اجازت نہ دیتے۔ المختصر اعتدال میں رہتے ہوئے شکار کرنا درست ہے، افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ③۔۔۔ حدیث مذکور سے حکمرانوں اور صاحب اختیار و اقتدار لوگوں کی کاسہ لیسی کرنے اور ان کے دروازوں پر حاضری دینے کی مذمت ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ ملوک وسلاطین کا قرب اچھے بھلے انسان کو فتنوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جسمانی بھی اور روحانی بھی۔ جسمانی فتنے تو اس طرح ہو سکتے ہیں کہ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں نہ ملانے کی وجہ سے اور ان کے اختیار کردہ منکرات و فواحش کا انکار کرنے سے جسمانی سزائیں بھگتنا پڑ سکتی ہیں جیسا کہ دنیا دار، نفس پرست بادشاہوں اور اصحاب اقتدار کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ان کے دین کو خطرہ ہوتا ہے، یعنی حکمرانوں کی موافقت کرنے سے یا ان کی بے راہ روی اور منکرات پر خاموش رہنے سے دین سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ اعاذنا الله منه ④۔۔۔ ”وہ غافل ہو گیا“ کیونکہ شکار پتا نہیں کہاں کہاں بھاگتا پھرے۔ ایک کھیت سے دوسرے کھیت میں، دوسرے سے تیسرے میں، لہٰذا اس کے پیچھے پیچھے پھرنے والا شخص اپنے گھر بار سے دور ہو جائے گا۔ گھریلو کام پڑے رہ جائیں گے۔ ایسا شخص نماز روزے کا پابند بھی نہیں رہ سکتا۔ پھر شکار ملے یا نہ ملے۔ گویا وہ دنیا سے بھی گیا اور آخرت سے بھی۔ [مترجم سنن نسائي: 286، 385/6]