وضاحت: تشریح: ”سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔“ اس لیے کہ اس میں انسان کو کئی طرح کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے اہل وعیال اور دوست و احباب کی جدائی کا صدمہ اور اس کے ساتھ ساتھ سفر کی صعوبتیں، تھکا وٹیں اور مشقتیں وغیرہ۔ مولانا داود راز رحمتہ اللہ رقمطراز ہیں: یہ اس زمانے میں فرمایا گیا جب گھر سے باہر نکل کر قدم قدم پر بے حد تکالیف اور خطرات کا مقابلہ کرنا پڑتا تھا، آج کل سفر میں بہت ہی آسانیاں مہیا ہوگئی ہیں مگر پھر بھی رسول برحق کا فرمان اپنی جگہ برحق ہے، ہوائی جہاز، موٹر جس میں بھی سفر ہو، بہت سی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بہت سے ناموافق حالات سامنے آتے ہیں جن کو دیکھ کر بے ساختہ منہ سے نکل پڑتا ہے: سفر بالواقع عذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔ ایک بزرگ سے پوچھا گیا کہ سفر عذاب کا ٹکڑا کیوں ہے؟ فوراً جواب دیا: اس لیے کہ سفر میں احباب سے جدائی ہو جاتی ہے اور یہ بھی ایک طرح سے روحانی عذاب ہے۔ (شرح صحیح بخاری: 3/ 110) سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جب زیارت خضر کے لیے سفر کیا تو پکار اٹھے: ﴿لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا﴾ (الكهف: 62)”بلاشبہ ہمیں ہمارے اس سفر میں تھکاوٹ پہنچی ہے۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر روانہ ہوتے تو کئی دعائیں فرماتے جن میں ایک یہ بھی ہوتی: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ»(مسلم: 1342)”اے اللہ! میں سفر کی مشقت اور تکلیف دہ منظر اور گھر والوں میں بری تبدیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔“ یاد رہے کہ جن روایتوں میں آتا ہے کہ سفر کرو تمہیں صحت ملے گی۔ وہ سب ضعیف ہیں۔ دیکھئے: الاتحاف الباسم، ص: 514۔