مسند الشهاب
احادیث 1 سے 200
127. الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ
127. انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے
حدیث نمبر: 187
187 - أَخْبَرَنَا لَبِيبُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أبنا أَبُو بَكْرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحُسَيْنِ، أبنا أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَبَحُّ، ثنا أَبُو أُمَيَّةَ، ثنا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، ثنا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک یہ ضرور دیکھ لے کہ وہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 187]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو داود: 4833، وترمذي: 2378، وأحمد: 2/ 303»

حدیث نمبر: 188
188 - أنا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ النَّخَعِيُّ، أنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، نا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، نا أَبُو عُبَيْدٍ، نا ابْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْمَرْءُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔ [مسند الشهاب/حدیث: 188]
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أبو داود: 4833، وترمذي: 2378، وأحمد: 2/ 303»

وضاحت: تشریح:
اس حدیث مبارک میں بتایا گیا ہے کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہٰذا دوستی لگانے سے قبل یہ اچھی طرح دیکھ سوچ لیں کہ آپ کس سے دوستی لگا رہے ہیں۔ دین سے مراد ملت و مذہب اور سیرت و اخلاق ہیں یعنی جو شخص کسی کو اپنا دلی دوست بنا تا ہے تو عموماً وہ اسی کے رنگ میں رنگا جاتا ہے، اسی کے عقائد ونظریات اور اسی کی سیرت و کردار کو اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ دوستی لگانے سے قبل اچھی طرح دیکھ لو کہ کس سے دوستی لگا رہے ہو۔
بڑی مشہور کہاوت ہے: صحبت صالح ترا صالح کنند۔ صحبت طالح ترا طالح کند۔ اچھے انسان کی صحبت تجھے اچھا اور برے کی صحبت تجھے برا بنا دے گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی خوبصورت مثال کے ذریعے اس بات کو واضح فرمایا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: اچھی اور بری صحبت کی مثال عطر فروش اور لوہے کی بھٹی جلانے والے کی طرح ہے۔ عطر فروش یا خود تجھے کچھ دے دے گا یا تو اس سے (عطر) خرید لے گا یا پھر کم از کم تجھے اس سے خوشبو آتی رہے گی اور جو لوہے کی بھٹی جلانے والا ہے اس کے پاس بیٹھنے سے تیرے کپڑے جل جائیں گے یا کم از کم تجھے بد بو اور دھواں ضرور آئے گا۔ (بخاری: 5534)
پتا چلا کہ دوست اچھا ہو تو خیر ہی خیر ہے اور اگر برا ہو تو شر ہی شر ہے لہٰذا دوست اسے بنانا چاہیے جو نیک ہو، جس کا دین کفر و شرک اور ہر طرح کی بدعات وخرافات سے پاک ہو۔ کافر اور بدعتی و فاسق فاجر کو کبھی بھی اپنا دلی دوست نہ بنائیں۔ پنجابی کا شعر ہے:
نیکاں دے لڑ لگیاں میرے جھولی پھل پئے
بد نیکاں دے لڑ لگیاں میرے اگلے وی ڈھل گئے
نیک لوگوں سے دوستی لگائی تو مجھے پھول ملے اور بروں کو دوست بنایا تو نئے پھول تو کیا ملنے تھے پہلے جوتھے وہ بھی گر گئے۔