الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


مسند احمد
مسند النساء
1184. حَدِيثُ صَفِيَّةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا
حدیث نمبر: 26858
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ ، عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ صَفِيَّةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى يَغْزُوَهُ جَيْشٌ، حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ بِأَوَّلِهِمْ وَآخِرِهِمْ، وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ الْمُكْرَهَ مِنْهُمْ؟ قَالَ:" يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ" .
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکرضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26858]
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: ينتهي الناس عن غزو هذا البيت ، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن صفوان، واختلف عليه فيه
حدیث نمبر: 26859
قَالَ سُفْيَانُ : قَالَ سَلَمَةُ : فَحَدَّثَنِي عُبَيْدُ بْنُ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26859]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 26860
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ يَعْنِي ابْنَ كُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ ، عَنِ ابْنِ صَفْوَانَ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَنْتَهِي النَّاسُ عَنْ غَزْوِ هَذَا الْبَيْتِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ، خُسِفَ أَوَّلُهُمْ وَآخِرُهُمْ، وَلَمْ يَنْجُ أَوْسَطُهُمْ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَكُونُ فِيهِمْ الْمُكْرَهُ؟ قَالَ:" يَبْعَثُهُمْ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَنْفُسِهِمْ" .
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس بیت اللہ پر حملے کے ارادے سے ایک لشکر ضرور روانہ ہوگا جب وہ لوگ بیداء نامی جگہ پر پہنچیں گے تو ان کے لشکر کا درمیانی حصہ زمین میں دھنس جائے گا اور ان کے اگلے اور پچھلے حصے کے لوگ بچیں گے اور نہ ہی درمیان والے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ جو لوگ زبردستی اس لشکر میں شامل کر لئے گئے ہوں گے ان کا کیا بنے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ان کی نیتوں پر اٹھایا جائے گا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26860]
حكم دارالسلام: حديث صحيح
حدیث نمبر: 26861
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْمُرْهِبِيُّ ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صَفْوَانَ , عَنْ صَفِيَّةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَنْتَهِي النَّاسُ" , وَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَسَاقَهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26861]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، راجع ما قبله
حدیث نمبر: 26862
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكِيمٍ ، عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ ، قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، فَسَأَلْتُ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ، فَقَالَتْ: حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَبِيذَ الْجَرِّ" .
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26862]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة صهيرة بنت جيفر
حدیث نمبر: 26863
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , وَعَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَكِفًا، فَأَتَيْتُهُ أَزُورُهُ لَيْلًا، فَحَدَّثْتُهُ، ثُمَّ قُمْتُ، فَانْقَلَبْتُ، فَقَامَ مَعِي يَقْلِبُنِي، وَكَانَ مَسْكَنُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، فَمَرَّ رَجُلَانِ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَمَّا رَأَيَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَسْرَعَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَى رِسْلِكُمَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ" , فَقَالَا: سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ! فَقَالَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنَ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ، وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يَقْذِفَ فِي قُلُوبِكُمَا شَرًّا" أَوْ قَالَ" شَيْئًا".
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کی حالت میں تھے، میں رات کے وقت ملاقات کے لئے بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی کچھ دیرباتیں کرنے کے بعد میں اٹھ کھڑی ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی مجھے چھوڑنے کے لئے میرے ساتھ آئے میری رہائش اس وقت داراسامہ بن زید میں تھی، اسی اثناء میں وہاں سے دو انصاری آدمی گزرے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر انہوں نے اپنی رفتار تیز کردی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ٹھہرو، یہ صفیہ بنت حیی ہیں، ان دونوں نے کہا کہ سبحان اللہ، اے اللہ کے رسول (کیا ہم آپ کے متعلق ذہن میں کوئی برا خیال لاسکتے ہیں؟) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ تمہارے دلوں میں کوئی وسوسہ پیدا نہ کردے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26863]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2035، م: 2175
حدیث نمبر: 26864
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يَعْلَى بْنَ حَكَمٍ يُحَدِّثُ , عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ ، قَالَتْ: حَجَجْنَا، ثُمَّ أَتَيْنَا الْمَدِينَةَ، فَدَخَلْنَا عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، فَوَافَقْنَا عِنْدَهَا نِسْوَةً، فَقَالَتْ: حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَبِيذَ الْجَرِّ" .
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے مٹکے کی نبیذ کا حکم پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے کی نبیذ کو حرام قرار دیا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26864]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة صهيرة بنت جيفر
حدیث نمبر: 26865
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَعْلَى بْنُ حَكِيمٍ , عَنْ صُهَيْرَةَ بِنْتِ جَيْفَرٍ سَمِعَهُ مِنْهَا , قَالَتْ: حَجَجْنَا، ثُمَّ انْصَرَفْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَدَخَلْنَا عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، فَوَافَقْنَا عِنْدَهَا نِسْوَةً مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ، فَقُلْنَ لَهَا: إِنْ شِئْتُنَّ سَأَلْتُنَّ وَسَمِعْنَا، وَإِنْ شِئْتُنَّ سَأَلْنَا وَسَمِعْتُنَّ , فَقُلْنَا: سَلْنَ، فَسَأَلْنَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ أَمْرِ الْمَرْأَةِ وَزَوْجِهَا، وَمِنْ أَمْرِ الْمَحِيضِ، ثُمَّ سَأَلْنَ عَنْ نَبِيذِ الْجَرِّ , فَقَالَتْ: أَكْثَرْتُمْ عَلَيْنَا يَا أَهْلَ الْعِرَاقِ فِي نَبِيذِ الْجَرِّ،: حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَبِيذَ الْجَرِّ وَمَا عَلَى إِحْدَاكُنَّ أَنْ تَطْبُخَ تَمْرَهَا، ثُمَّ تَدْلُكَهُ، ثُمَّ تُصَفِّيَهُ، فَتَجْعَلَهُ فِي سِقَائِهَا، وَتُوكِئَ عَلَيْهِ، فَإِذَا طَابَ، شَرِبَتْ وَسَقَتْ زَوْجَهَا" .
صہیرہ بنت جیفر کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے حج کیا، پھر مدینہ منورہ حاضر ہوئے تو وہاں حضرت صفیہ بنت حیی کی خدمت میں بھی حاضری ہوئی ہم نے ان کے پاس کوفہ کی کچھ خواتین کو بھی بیٹھے ہوئے پایا ان خواتین نے صہیرہ سے کہا کہ اگر تم چاہو تو تم لوگ سوال کرو اور ہم سنتے ہیں ورنہ ہم سوال کرتے ہیں اور تم اسے سننا، ہم نے کہا کہ تم لوگ ہی سوال کرو چنانچہ انہوں نے حضرت صفیہ سے کئی سوال پوچھے مثلا میاں بیوی کے حوالے سے، ایام ناپاکی کے حوالے سے اور پھر مٹکے کی نبیذ کے حوالے سے تو حضرت صفیہ نے فرمایا اے اہل عراق تم لوگ مٹکے کی نبیذ کے متعلق بڑی کثرت سے سوال کر رہے ہو (نبی علیہ السلام نے اسے حرام قرار دیا ہے) البتہ تم میں سے کسی پر اس بات میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی کھجوروں کو پکائے پھر اسے مل کر صاف کرے اور مشکیزے میں رکھ کر اس کا منہ باندھ دے جب وہ اچھی ہوجائے تو خود بھی پی لے اور اپنے شوہر کو بھی پلائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26865]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة صهيرة بنت جيفر
حدیث نمبر: 26866
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي شُمَيْسَةُ أَوْ سُمَيَّةُ ، قَالَ: عَبْدُ الرَّزَّاقِ هُوَ فِي كِتَابِي سُمَيَّةُ , عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ بِنِسَائِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، نَزَلَ رَجُلٌ، فَسَاقَ بِهِنَّ، فَأَسْرَعَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَاكَ سَوْقُكَ بِالْقَوَارِيرِ" يَعْنِي النِّسَاءَ , فَبَيْنَا هُمْ يَسِيرُونَ، بَرَكَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جَمَلُهَا، وَكَانَتْ مِنْ أَحْسَنِهِنَّ ظَهْرًا، فَبَكَتْ , وَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهَا بِيَدِهِ، وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُكَاءً وَهُوَ يَنْهَاهَا، فَلَمَّا أَكْثَرَتْ، زَبَرَهَا وَانْتَهَرَهَا، وَأَمَرَ النَّاسَ بِالنُّزُولِ، فَنَزَلُوا، وَلَمْ يَكُنْ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِلَ , قَالَتْ: فَنَزَلُوا، وَكَانَ يَوْمِي، فَلَمَّا نَزَلُوا، ضُرِبَ خِبَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَخَلَ فِيهِ، قَالَتْ: فَلَمْ أَدْرِ عَلَامَ أُهْجَمُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنِّي فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَائِشَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: تَعْلَمِينَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَبِيعُ يَوْمِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ أَبَدًا، وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُ يَوْمِي لَكِ عَلَى أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَخَذَتْ عَائِشَةُ خِمَارًا لَهَا قَدْ ثَرَدَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ، فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيُذَكِّيَ رِيحَهُ، ثُمَّ لَبِسَتْ ثِيَابَهَا، ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَتْ طَرَفَ الْخِبَاءِ، فَقَالَ لَهَا:" مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ؟ إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِيَوْمِكِ" , قَالَتْ: ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ، فَقَالَ: مَعَ أَهْلِهِ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الرَّوَاحِ، قَالَ لِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ:" يَا زَيْنَبُ، أَفْقِرِي أُخْتَكِ صَفِيَّةَ جَمَلًا"، وَكَانَتْ مِنْ أَكْثَرِهِنَّ ظَهْرًا، فَقَالَتْ: أَنَا أُفْقِرُ يَهُودِيَّتَكَ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهَا، فَهَجَرَهَا، فَلَمْ يُكَلِّمْهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَأَيَّامَ مِنًى فِي سَفَرِهِ، حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ، وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرَ، فَلَمْ يَأْتِهَا، وَلَمْ يَقْسِمْ لَهَا، وَيَئِسَتْ مِنْهُ، فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ، دَخَلَ عَلَيْهَا، فَرَأَتْ ظِلَّهُ، فَقَالَتْ: إِنَّ هَذَا لَظِلُّ رَجُلٍ، وَمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ هَذَا؟ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَأَتْهُ , قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَدْرِي مَا أَصْنَعُ حِينَ دَخَلْتَ عَلَيَّ؟ قَالَتْ: وَكَانَتْ لَهَا جَارِيَةٌ، وَكَانَتْ تَخْبَؤُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: فُلَانَةُ لَكَ، فَمَشَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَرِيرِ زَيْنَبَ، وَكَانَ قَدْ رُفِعَ، فَوَضَعَهُ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَصَابَ أَهْلَهُ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ .
حضرت صفیہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات کو بھی اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، ابھی راستے ہی میں تھے کہ ایک آدمی اتر کر ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان آبگینوں (عورتوں) کو آہستہ ہی لے کر چلو دوران سفر حضرت صفیہ کا اونٹ بدک گیا، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی، وہ رونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے، لیکن وہ اور زیادہ رونے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں برابر منع کرتے رہے لیکن جب دیکھا کہ وہ زیادہ ہی روتی جا رہی ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سختی سے جھڑک کر منع فرمایا: اور لوگوں کو پڑاؤ کرنے کا حکم دیدیا حالانکہ اس مقام پر پڑاؤ کا ارادہ نہ تھا، لوگوں نے پڑاؤ ڈال لیا، اتفاق سے اس دن حضرت صفیہ ہی کی باری بھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک خیمہ لگادیا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خیمے میں تشریف لے گئے۔ حضرت صفیہ کہتی ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیسے جاؤں؟ مجھے ڈر تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہوگئے ہوں، چنانچہ میں حضرت عائشہ کے پاس چلی گئی اور ان سے کہا آپ جانتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی باری کا دن کسی بھی چیز کے عوض نہیں بیچ سکتی، لیکن آج میں اپنی باری کے دن آپ کو اس شرط پر دیتی ہوں کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ سے راضی کردیں۔ حضرت عائشہ نے حامی بھرلی اور اپنا دوپٹہ لے کر جسے انہوں نے زعفران میں رنگا ہوا تھا، اس پر پانی کے چھینٹے مارے تاکہ اس کی مہک پھیل جائے پھر نئے کپڑے پہن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل پڑیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کے قریب پہنچ کر انہوں نے پردے کا ایک کونا اٹھایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا عائشہ! کیا بات ہے آج تمہاری باری تو نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ تو اللہ کا فضل ہے جسے چاہے عطاء کردے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دوپہر اپنی زوجہ محترمہ (حضرت عائشہ) کے ساتھ قیلولہ فرمایا۔ جب روانگی کا وقت آیا تو نبی علیہ السلا نے حضرت زینب بنت جحش سے فرمایا جن کے پاس سواری میں گنجائش زیادہ تھی کہ اپنی بہن صفیہ کو اپنے ساتھ اونٹ پر سوار کرلو، حضرت زینب کے منہ سے نکل گیا کہ میں آپ کی یہودیہ بیوی کو اپنے ساتھ سوار کروں گی؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کرنا راض ہوگئے اور ان سے ترک کلام فرما لیا حتی کہ مکہ مکرمہ پہنچے، منیٰ کے میدان میں ایام گزارے پھر مدینہ منورہ واپس آئے محرم اور صفر کا مہینہ گزرا لیکن حضرت زینب کے پاس نہیں گئے حتی کہ باری کے دن بھی نہیں گئے، جس سے حضرت زینب ناامید سی ہوگئیں۔ جب ربیع الاول کا مہینہ آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں تشریف لے گئے، وہ سوچنے لگیں کہ یہ سایہ تو کسی آدمی کا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آنے والے نہیں تو یہ کون ہے؟ اتنی دیر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے اندر آگئے، حضرت زینب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہنے لگیں یا رسول اللہ! خوشی سے مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ آپ کی تشریف آوری پر کیا کروں؟ ان کی ایک باندی تھی جو ان کے لئے خیمہ تیار کرتی تھی، انہوں نے عرض کیا کہ فلاں باندی آپ کی نذر پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب کی چارپائی تک چل کر آئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا پھر ان سے تخلیہ فرمایا اور ان سے راضی ہوگئے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26866]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سمية، وقد خالف جعفر بن سليمان حماد بن سلمة، فجعله من حديث صفية بنت حيي، إنما رواه حماد من حديث عائشة
حدیث نمبر: 26867
حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ سُمَيَّةَ ، عَنْ عَائِشَةَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ، فَاعْتَلَّ بَعِيرٌ لِصَفِيَّةَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 26867]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة سمية