حضرت ابورقاشی اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں ایام تشریق کے درمیانی دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام میں نے پکڑی ہوئی تھی اور لوگوں پیچھے ہٹا رہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ آج تم کس دن میں ہو؟ کس مہینے میں ہو؟ اور کس شہر میں ہو لوگوں نے عرض کیا حرمت والے دن میں ہیں اور حرمت والے مہینے میں اور حرمت والے شہر میں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہاری جان، مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح حرمت والے ہیں جس طرح یہ دن اور یہ مہینہ اور اس شہر میں ہے یہاں تک کہ تم اپنے رب سے جا ملو۔ پھر فرمایا کہ لوگو میری بات سنو تمہیں زندگی ملے گی خبردار کسی پر ظلم نہ کرو تین مرتبہ فرمایا کسی شخص کا مال اس کی دلی رضامندی کے بغیر حلال نہیں ہے یادر کھو۔ ہر وہ خون، مالی معاملہ اور فخر ومباہات کی چیزیں جو زمانہ جاہلیت میں تھیں آج میرے ان دو قدموں کے نیچے ہیں قیامت تک کے لئے اور سب سے پہلا خون جو معاف کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے جو بنولیث کے یہاں دودھ پیتا بچہ تھا تھا اور بنوہذیل نے اسے قتل کردیا تھا اسی طرح زمانہ جاہلیت کا ہر سود ختم کیا جاتا ہے اور اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ سب سے پہلا سود حضرت عباس بن عبدالمطلب کا ختم کیا جاتا ہے تمہیں تمہارا اصل راس المال ملے گا جس میں تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ یاد رکھو زمانہ اسی کی ہیئت پر واپس گھوم کر آگیا ہے جس پر اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا پھر یہ آیت تلاوت فرمائی " اللہ کے نزدیک اللہ کے فیصلے میں اسی دن مہینوں کی گنتی بارہ تھی جب اس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے لہذا ان مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ " خبردار میرے بعد کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو یادر کھو شیطان اس بات سے مایوس ہوچکا ہے کہ اب نمازی اس کی پوجا کریں گے لیکن وہ تمہارے درمیان پھوٹ ڈالتا رہے گا عورتیں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ وہ تمہارے زیرنگین ہیں خود وہ کسی چیز کی مالک نہیں ان کے تم پر اور تمہارے ان پر کچھ حقوق ہیں۔ وہ تمہارے بستروں پر تمہارے علاوہ کسی کو نہ آنے دیں کسی ایسے شخص کو تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں جس کو تم اچھا نہ سمجھتے ہو اگر تمہیں ان کی نافرمانی سے خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ ان کے بستر الگ کردو اور اس طرح مارو جس سے کوئی نقصان نہ ہو ان کا کھانا پینا اور کپڑے بھلے طریقے سے تمہارے ذمہ ہیں تم نے انہیں امانتاً لیا ہے اور اللہ کے کلمہ کے ذریعے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ خبردار جس کے پاس کوئی امانت ہو اس کو امانت رکھوانے والے کے لئے حوالے کردیا جائے اور پھر ہاتھ پھیلا کر فرمایا کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ (تین مرتبہ فرمایا) پھر فرمایا حاضرین غائبین تک یہ باتیں پہنچا دیں کیونکہ بہت سے غائبین سننے والوں سے زیادہ سعادت مند ہوتے ہیں۔ [مسند احمد/أَوَّلُ مُسْنَدِ الْبَصْرِيِّينَ/حدیث: 20695]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره منقطعا، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد