ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی نے، کہا ہم کو ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور انہیں رفاعہ رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ پھر ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر قرظی رضی اللہ عنہ نے نکاح کر لیا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ خاتون سبز اوڑھنی اورڑھے ہوئے تھیں، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اپنے شوہر کی) شکایت کی اور اپنے جسم پر سبز نشانات (چوٹ کے) دکھائے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو (جیسا کہ عادت ہے) عکرمہ نے بیان کیا کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) کہا کہ کسی ایمان والی عورت کا میں نے اس سے زیادہ برا حال نہیں دیکھا ان کا جسم ان کے کپڑے سے بھی زیادہ برا ہو گیا ہے۔ بیان کیا کہ ان کے شوہر نے بھی سن لیا تھا کہ (ان کی) بیوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی آ گئے اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے ان سے پہلی بیوی کے تھے۔ ان کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے ان سے کوئی اور شکایت نہیں البتہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جس سے میرا کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا (یعنی ان کے شوہر کمزور ہیں) اس پر ان کے شوہر نے کہا: یا رسول اللہ! واللہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اس کو (جماع کے وقت) چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے، یہ مجھے پسند نہیں کرتی اور رفاعہ کے یہاں دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو تمہارے لیے وہ (رفاعہ) اس وقت تک حلال نہیں ہو گا جب تک یہ (عبدالرحمٰن دوسرے شوہر) تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کے ساتھ دو بچے بھی دیکھے تو دریافت فرمایا کیا یہ تمہارے بچے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا، اس وجہ سے تم یہ باتیں سوچتی ہو۔ اللہ کی قسم یہ بچے ان سے اتنے ہی مشابہ ہیں جتنا کہ کوا کوے سے مشابہ ہوتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5825]