صحيح الادب المفرد
حصہ سوئم: احادیث 500 سے 750
298.  باب قول الرجل للرجل: ويلك 
حدیث نمبر: 597
597/772 عن أنس: أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى رجلاً يسوق بدنة(1).فقال:"اركبها". فقال: إنها بدنة! قال:"اركبها".قال: إنها بدنة! قال:"اركبها".قال: فإنها بدنة! قال:"اركبها ويلك".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ ایک ایسی اونٹنی ہانک کر لے جا رہا تھا جو مکہ میں جا کر ذبح کرنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جا۔ اس نے کہا: یہ مکہ میں ذبح ہونے والی اونٹنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جا۔ اس نے کہا: یہ مکہ میں ذبح ہونے والی اونٹنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر سوار ہو جا۔ اس نے کہا: یہ تو مکہ میں ذبح ہونے والی اونٹنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس تجھ پر اس پر سوار ہو جا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 597]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 598
598/773 عن المسور بن رفاعة القرظي، قال: سمعت ابن عباس- ورجل يسأله- فقال: إني أكلت خبزاً ولحماً [ فهل أتوضأ؟]. فقال:"ويحك، أتتوضأ من الطيبات؟".
مسور بن رفاعہ قرظی سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ایک شخص ان سے مسئلہ پوچھ رہا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے روٹی اور گوشت کھایا ہے۔ کیا میں وضو کر وں؟ انہوں نے کہا: افسو س تجھ پر، کیا پاک صاف غذا کے بعد تو وضو کرے گا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 598]
تخریج الحدیث: (صحيح الإسناد)

حدیث نمبر: 599
599/774 عن جابر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم حنين بالجعرانة(2)، والتبر في حجر بلال، وهو يقسم، فجاءه رجل فقال: اعدل؛ فإنك لا تعدل! فقال:"ويلك، فمن يعدل إلا لم أعدل؟!". قال عمر: دعني يا رسول الله أضرب عنق هذا المنافق.فقال:"إن هذا مع أصحاب له- أوفي أصحاب له- يقرؤون القرآن، لا يُجاوز تراقيهم، يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية". قلت لسفيان: رواه قرة عن عمرو عن جابر؟ قال: لا أحفظه من عمرو. وإنما حدثناه أبو الزبير عن جابر.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقام جعرانہ (مکہ سے سات میل کے فاصلے پر طائف کے جانب ایک جگہ کا نام ہے) میں تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی گود میں سونے کی ڈلی تھی، اور وہ تقسیم کر رہے تھے۔ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہا: انصاف کیجئے۔ آپ انصاف نہیں کر رہے۔ آپ نے فرمایا: افسوس تجھ پر۔ اگر میں نے انصاف نہ کیا تو اور کون انصاف کرے گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہے۔ یا فرمایا: اپنے دوستوں میں ہے، یہ لوگ قرآن پڑھیں گے اور قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا، وہ دین سے یوں کورے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔ میں نے سفیان سے کہا: کیا قرۃ نے یہ عمرو سے روایت کیا ہے اور عمرو نے جابر سے۔ انہوں نے کہا: عمرو سے روایت ہونا میں یاد نہیں رکھتا، ہمیں یہ حدیث ابوزبیر نے جابر سے روایت کر کے بیان کی ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 599]
تخریج الحدیث: (صحيح)

حدیث نمبر: 600
600/775 عن بشير [ بن معبد السدوسي]- وكان اسمه: زحم بن معبد، فهاجر إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال:"ما اسمك؟"، قال: زحم. قال:"بل أنت بشير". قال: بينما أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم [ قال:"يا ابن الخصاصية!(3) ما أصبحت تنقم على الله؟ أصبحت تماشي رسول الله صلى الله عليه وسلم". قلت: بأبي أنت وأمي ما أنقم على الله شيئاً، كل خير قد أصبت/829](4)، إذ مر بقبور [وفي رواية: فأتى على قبور] المشركين. فقال:" لقد سبق هؤلاء خيراً كثيراً" ثلاثاً. فمر قبور[ وفي رواية: فأتى على قبور] المسلمين. فقال:" لقد أدرك هؤلاء خيراً كثيراً" ثلاثاً. فحانت من النبي صلى الله عليه وسلم نظرة، فرأى رجلاً يمشي في القبور، وعليه نعلان، فقال:" يا صاحب السبتيتين! ألق سبتيتيك". فنظر الرجل، فلما رأى النبي صلى الله عليه وسلم خلع نعليه، فرمى بهما.
بشیر بن معبد سدوسی سے مروی ہے جن کا نام زحم بن معبد تھا۔ یہ ہجرت کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا نام کیا ہے۔ انہوں نے کہا: زحم، فرمایا: نہیں بلکہ تم بشیر ہو۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے خصاصیہ (یہ ان کی دادی یا نانی تھیں) کے بیٹے! کیا بات ہے کہ تم اللہ پر ناراض ہونا شروع ہو گئے ہو، حالانکہ تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللہ کے رسول کے ساتھ چل رہے ہو۔ میں نے کہا: میرے ماں باپ فدا ہوں، میں تو اللہ سے کسی چیز پر ناراض نہیں ہوں، میں نے ہر قسم کی خیر کو حاصل کر لیا ہے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبروں پر ہوا اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کی قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ بہت سی بھلائی کو چھوڑ کر آگے چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین دفعہ فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ قبروں پر گزرے اور ایک روایت میں ہے کہ مسلمانوں کی قبروں پر آئے اور تین دفعہ فرمایا: ان لوگوں نے بہت ساری بھلائی پا لی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اٹھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ قبروں پر چل رہا ہے اور اس نے جوتا پہنا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چمڑے کے جوتے پہننے والے! اپنے چمڑے کے جوتے اتار پھینکو۔ تو اس آدمی نے دیکھا، جب اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اپنے جوتے اتار دیے اور انہیں پھینک دیا۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 600]
تخریج الحدیث: (صحيح)